Pakistani Muashra
پاکستانی معاشرہ
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی معاشرے میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک طرف مادی طور پر انتہاء کی ترقی نظر آتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال انتہائی عام ہوگیا ہے۔ آپ موٹر سائیکل سے لے کر لگثرری گاڑی تک آن لائن ہائر کر سکتے ہیں۔ ہر قسم کا کھانا اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ سے منگوا سکتے ہیں۔ جوتے سے لے کر کپڑے تک کوئی ایسی چیز نہیں جو اپ کو گھر بیٹھے نہ مل جاتی ہو۔
تعلیم کا حصول بھی آسان ہو چکا ہے۔ ایک لفظ کا مطلب ڈھونڈنا ہو یا ریاضی کا کوئی سوال حل کرنا ہو۔ آپ کو ڈھیروں اپیس اور ویڈیوز نظر آئیں گی۔ آپ کے گھر کا نلکا بھی خراب ہو جائے تو آپ کو آن لائن پلمبر مل جاتا ہے۔ جھاڑو تک آپ کو گھر بیٹھے میسر ہو جاتا ہے۔ غرض پاکستانی معاشرہ اس وقت ترقی کے عروج پر ہے۔ لیکن اخلاقی طور پر ہم کہاں کھڑے ہیں؟
اصل سوال یہ ہے۔ ہم جس نبی کی امت ہیں۔ حضرت محمد ﷺ ان کے اخلاق و کردار کی گواہی کفار نے بھی دی۔ اپنے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے اخلاق سے متعلق واقعات بیان کرنے لگ جاؤں تو ناکام رہوں۔ اور شاید ان کا احاطہ نہ کر سکوں۔ لیکن ہمارا پاکستانی معاشرہ اخلاقی طور پر جس تنزلی کا شکار ہے۔ وہ بھی بیان سے باہر ہے۔ ہم نے دنیاوی ترقی تو کر لی مگر ہمارا اخلاق گہرے کنوئیں میں گرتا چلا گیا۔
آج یہ حال ہے کہ ہمسائے کو ہمسائے کی فکر تو دور کی بات۔ ہوش بھی نہیں۔ خونی رشتے برائے نام رہ گئے ہیں۔ دوستیاں صرف مطلب اور مفادات کے لئے کی جاتی ہیں۔ اداروں میں ٹانگ کھینچنے کا عمل عروج پر ہے۔ کامیاب وہ ہے جس کے پاس پیسہ۔ اسٹیٹس ہے۔ چاہے کردار ہستیوں میں گرا ہو۔ بغیر کسی لحاظ کے کہا جاتا ہے کہ پاکستان غریب کے لئے نہیں ہے۔ عام انسان کو پاکستان میں نہیں رہنا چاہئے۔ یہاں کوئی سسٹم نہیں ہے۔
سسٹم بنانے والے کون ہوتے ہیں؟ وہ پاکستانی انسان ہی ہیں۔ جب ان کی اپنی اخلاقی تربیت نہیں ہوگی تو انہوں نے کون سے سسٹم بنانے ہیں۔ اور کہاں لاگو کرنے ہیں؟ جس معاشرے میں غریب کے لئے الگ قانون امیر کے لئے الگ معیار ہو وہ معاشرہ اخلاقی طور پر کہاں کھڑا ہے؟ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ایک انسانی بچے کی تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے۔ اسکولز میں پروان چڑھتی ہے۔ کبھی والدین نے سوچا کہ وہ کیا تربیت کر رہے ہیں؟ ہم بچوں کو پیسا کمانے کے لئے آگے بڑھنا سکھاتے ہیں۔ اسکولز میں کاپیاں سیاہ کی جاتی ہیں۔ ہمارے مدرسے تشدد کو فروغ دے رہے ہیں۔
پھر ہم کیوں امید کریں کہ منصف انصاف کے تقاضے پورے کرے گا؟ ڈاکڑ بغیر لالچ کے علاج کرے گا۔ غرض ہر شخص ایمانداری سے اپنا فرض نبھائے۔ ہم ہجوم کو پروان چڑھا رہے ہیں اور پھر جو چاہے اس ہجوم کو پیچھے لگا لے۔ اور اپنے گھٹیا مقاصد پورے کرے۔ عمران خان جیسا شخص اٹھے اور قوم کو بتائے کہ میں تمہارا اخلاق سنوارنے آیا ہوں۔ تمہیں دین سمجھاؤں گا۔ تمہاری زندگیاں بدل دوں گا۔ سب چور اور بےایمان ہیں۔ صرف میں مسیحا ہوں۔
اور قوم کے جوان، بوڑھے، عورتیں ایک ہجوم بن کر اس کے پیچھے چل پڑیں۔ وہ شخص جس کی بدزبانی سے کوئی محفوظ نہیں۔ جو جنسی زیادتی کا ذکر ایسے کرتا ہے کہ سننے والوں کو شرم آ جائے مگر اس کی زبان نہ رکے۔ جس نے معاشرے کو اخلاقی طور پر تباہ کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جس نے چھوٹے بڑے کا لحاظ ختم کر دیا۔ شہداء کے تقدس کو پامال کیا۔ وہ اب بھی بڑے دھڑلے سے قوم سے خطاب کرتا ہے۔ اور ہمیں بتاتا ہے کہ تم لوگ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
جس عورت نے دین میں شرک اور بدعات کو پھیلایا۔ معاشرے کو بتایا کہ جادو ٹونے سے وزیراعظم بھی بنا جا سکتا ہے۔ مالی کرپشن کی۔ وہ عورت سیکورٹی اور سفید چادروں کے چھرمٹ میں منصف کے سامنے پیش ہوتی ہے۔ اور کوئی چھوٹا موٹا جرم کرنے والی عورت دھکے کھاتی ہوئی ذلیل ہوتی ہوئی عدالت آتی ہے۔ یہ ہیں ہمارے اخلاقی معیار۔ اور ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں۔
میں تو علماء اکرام کے کردار پر حیران ہوں۔ کوئی بھی عدلیہ کے کردار کی مذمت نہیں کرتا۔ کیا دین اسلام میں انصاف کے معیار یہ تھے؟ تو پھر جناح ہاؤس کیوں نہ جلے۔ شہداء کی بے حرمتی کیوں نہ ہو۔ بلوے کیوں نہ ہو؟ اللہ کا واسطہ ہے صاحب اقتدار ہوش کے ناخن لیں۔ ورنہ جو درندے آپ تیار کر رہے ہیں ایک دن یہ آپ کو ہی چیر پھاڑ کھائیں گے۔