Nikkah Aik Muqaddas Fareeza
نکاح ایک مقدس فریضہ
شادی یا نکاح ایک بے حد خوبصورت رشتہ اور مقدس فریضہ ہے۔ دنیا کے سب سے سچے اور خوبصورت مذہب، دین اسلام میں نکاح ایک بے حد اہمیت کا حامل فرض ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں کہ لڑکے یا لڑکی کے بالغ ہونے پر پہلا اہم کام ان کا نکاح کرنا ہے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے ہمیں بتایا کہ شیطان مردود اس دن چیخیں مار کر روتا اور تڑپتا ہے جسں دن مسلمان نکاح کے بندھن میں بندھتا ہے۔ کیوں کہ اس دن اس کا آدھا ایمان محفوظ ہو جاتا ہے۔ اور وہ حرام سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
ہمارے دین میں نکاح کو بے حد آسان بنایا گیا ہے۔ تاکہ حرام سے بچا جائے اور حلال خوشیوں سے لطف اٹھایا جا سکے۔ لیکن کیا کریں ہم لوگوں کو آسان چیزیں اچھی نہیں لگتیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو خود کو مشکل میں ہنسی خوشی ڈالتے ہیں۔ پھر مظلوم بنتے ہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ ہمارے دین میں لمبی چوڑی بارات کا کوئی تصور نہیں۔ نہ ہی طعام کا کوئی حکم ہے۔ جہیز بھی صرف ضرورت کی چیزوں پر مشتمل دینے کا حکم ہے۔
مگر ہم لوگ کیا کرتے ہیں یہ سب جانتے ہیں۔ ہمارا لڑکا کما کما بری بناتا ہے پھر اوقات سے بڑھ کر شاندار ولیمے کا انتظام کرتاکرتا آدھا بوڑھا ہو جاتا ہے۔ ہماری لڑکی جہیز خرید کر یا جوڑ جوڑ کر بے حال ہو جاتی ہے۔ اور ڈپریشن کی مریضہ بن کر سسرال پہنچتی ہے۔ ہم جو خود کو مسلمان کہلاتے ہیں۔ آخر دین کے صرف اسی اصول پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ جو ہمارے مفاد میں ہے۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے فرمایا وہ نکاح بابرکت ہے اور شوہر و بیوی کے رشتے میں بے پناہ محبت ہے۔ جس میں کم سے کم پیسہ خرچ کیا جائے اور فضول رسومات نہ ادا کی جائیں۔ لیکن ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جو دین اسلام کے الٹ یا خلاف ہو۔ کبھی آپ نے محسوس کیا ہے کہ شادی کے فوراً بعد مسائل کی ایسی یلغار ہوتی ہے کہ دونوں خاندان اتنا پیسہ خرچ کرکے بچے بچی کے فرض سے سبکدوش ہو کر بھی سکون نہیں پا رہے ہوتے۔
وجہ صرف یہی ہے۔ جب بتائے گئے راستے کو چھوڑ کر اپنا راستہ اپنائیں گے۔ تو پھر انجام بخیر کیسے ہوگا؟
ہم کہتے تو ہیں کہ زنا کو مشکل اور نکاح کو آسان بنائیں۔ مگر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کتنے لوگ اس بات پر خود عمل کرتے ہیں۔ صرف چند فیصد جن کی تعدار آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کیا والدین نے کبھی یہ سوچا کہ وہ اپنی کمائی اور عمر کا ایک طویل عرصہ صرف اولاد کی شادی کے لئے صرف کر دیتے ہیں۔ اور جب کسی کو سمجھانے کی کوشش کرو تو کہتے ہیں یہ تو ہمارا فرض ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا فرض تربیت ہے یا کچھ اور۔ کتنے والدین ہیں جو بچوں کو سات سال کی عمر سے نماز کا پابند بناتے ہیں۔ انھیں مسنون دعائیں یا اذکار سکھاتے ہیں۔ ان کے اخلاق سنوارنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔
ہم بچوں کو پوزیشن کی دوڑ میں دوڑنا سکھاتے ہیں۔ ہم انھیں کمانا سکھاتے ہیں۔ ہم انھیں آزادی دے کر خود کو بڑے لبرل والدین ثابت کرتے ہیں۔ صد افسوس ہم خسارے کا سودا کر رہے ہیں۔ اولاد کو قرآن پاک میں آزمائش قرار دیا گیا۔ ان پر شفقت کا اظہار کرنے کا ضرور کہا گیا۔ ان پر اپنا مال خرچ کرنے کا بھی حکم دیا گیا۔ مگر یہ نہیں کہا گیا کہ ان کی قسمتیں اپنے ہاتھوں سے لکھنے کے چکر میں اپنی ساری زندگی جہیز اور بری جوڑنے میں گزار دیں۔
میری والدین سے التجا ہے اولاد کی تربیت کریں ان کی ہدایت اور بہترین مستقبل کے لئے دعائیں کریں۔ آپ کی دعائیں انھیں بام عروج پر پہنچا دیں گی۔ انھیں سادگی کا درس دیں۔ وقت پر ان کے نکاح کریں۔ کیا آپ نعوذباللہ من ذالک اپنے خالق سے زیادہ جانتے ہیں۔ یا اس کے نبی ﷺ سے زیادہ سمجھدار ہیں؟ َ
وقت پر سادگی سے کیا گیا نکاح آپ کے بیٹے یا بیٹی کو خوشی، اطمینان کے دلکش روپ دکھائے گا۔ انشااللہ