Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saira Kanwal/
  4. Main Aham Tha

Main Aham Tha

میں اہم تھا

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مخلوقِ انسان ایک بہت ہی عجیب وغریب مخلوق ہے۔ اس پرجب غور کریں تو خود سمیت سب پر ہنسی آتی ہے۔ آپ انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک کے سفر پر نظر دوڑائیں۔ یقین منائیے آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔ ایک خون کے لوتھڑے سے وجود میں آنے والی مخلوق، جب دنیا میں آتی ہے تو اپنے ہر کام کے لیے محتاج ہے۔

دھیرے دھیرے وقت گزرتا ہے۔ مسلسل تربیت، خیال، خوراک کے بعد یہ مخلوقِ اس قابل ہوتی ہےکہ اپنے پیروں پر چل سکے اور اپنی ضروریات پوری کر سکے۔ طاقت، خوبصورتی، ذہانت، غرض اللہ کی طرف سے ہر شے جب عطا کر دی جاتی ہے۔ تو یہ مخلوقِ اپنے خالق کو ہی آنکھیں دکھانے لگ جاتی ہے۔

نمرود بن جاتی ہے، شداد جیسی لاحاصل خواہشاتِ کرنے لگ جاتی ہے۔۔ فرعون بن کر اللہ کی ہی زمین پر فساد ڈالتی ہے۔

کبھی آپ نے سوچا کہ ہمارے رب کی برداشت کتنی ہے؟ ان سب باتوں کے باوجود وہ پھر انسان کو اس کے آخری وقت تک توبہ کا موقع دیتا ہے۔ مگر ہم بھی ایسے بد قسمت ہیں۔ یہ موقع ضائع کرتے ہی چلے جاتے ہیں یہ سوچ کر ہم بہت اہم اور ذہین ہیں۔

ابلیس کو یہی تکبر مار گیا اور صاحب اقتدار کہتے تو خود کو مسلمان ہیں مگر ابلیس کے پیروکار بننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

دین اسلام مکمل طور پر ہمارے سامنے موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہدایت کے لئے ہر گھر میں موجود ہے۔ مگر مکمل طور پر عمل کرنا ایک طرف ہم تو جزوی باتوں پر بھی عمل نہیں کرتے۔

یہ کیسا شیطانی پھندہ ہے؟ کیسا بہکاوہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان ہیں۔

صرف ایک رات سوتے ہوئے یہ سوچیں ہم ہر وہ کام کر رہے ہیں جو اللہ کے احکامات کے الٹ ہے۔

کچھ عرصہ پہلے ایک حدیث پڑھی تھی۔ حوالہ تو یاد نہیں۔ اگر ضعیف محسوس ہو تو پیشگی معزرت۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا رب تو اس بات پر ہی راضی ہو جاتا ہے کہ سیڑھیاں چڑھنے اور اترنے کی دعا پڑھ لو اور کھانا کھانے کی دعائیں پڑھ لو۔

یقین کریں جب اپنے گناہوں، لغزشوں کا بوجھ حد سے زیادہ محسوس ہونے لگے اور دم گھٹنے لگے تو یہ حدیث یاد کرلیں اور اللہ کی رحمت سے امید لگا لیں کہ رب جلد راضی ہونے والا اور معاف کرنے والا ہے۔

اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تخت سے تختے تک کا سفر کرتے بہت سے لوگ عبرت کی مثال بنے نظر آئیں گے۔۔ یہ لوگ بھی تو خود کو ناگزیر سمجھتے تھے۔ پھر کیا ہوا اچھا یا برا وقت تو گزر ہی رہا ہے۔۔ کیا فرق پڑ گیا؟ انسانی ذہن قدرتی طور پر ایسا ہے کہ ہم تو مرے ہوئے لوگوں کو بھی بھول جاتے ہیں۔

پھر پردہ اسکرین سے اوجھل ہونے والوں کو کون یاد رکھے۔ یاد رکھیں ساری ذہانت، چالاکی، دشمنی یہی رہ جانی ہے اور آپ نے خالی ہاتھ چلے جانا ہے۔ دنیا کے قید خانے سے نکلنے کے لیے اتنی جدو جہد کرنے والے آخرت میں کیا کریں گے؟

اتنے نوٹوں کی کرپشن کرکے عوام کا خون چوسنے والے کیا فرشتوں کو بھی نوٹ دکھائیں گے؟ دین اسلام میں تو اپنی ضرورت سے زیادہ مال جمع کرنے کی ممانعت ہےآپ لوگ قبر کے اس سوال کا کیسے جواب دیں گے کہ مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟

صاحب اقتدار لوگ شرم کر لیں۔ لوٹ مار کا پیسہ باہر نکال دیں۔ عوام خود کشیاں کر رہے ہیں اور آپ لوگ پیسے کو زیور، قیمتی کپڑے، بڑے گھر، گاڑیوں کی صورت میں اپنے اردگرد اکھٹا کرکے ناگ کی صورت میں اس پر بیٹھے ہیں۔

وقت ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسل رہا ہے۔ ہر آنے والا دن آخری آرام گاہ کی طرف لے جا رہا ہے۔ اپنی ذہانت، ڈپلومیسی اور تعلقات کو سفر آخرت آ سان بنانے پر لگائیں۔ ورنہ آپ کے ہاتھ صرف پچھتاوے رہ جائیں گے۔

Check Also

Asma Jahangir Conference Mein German Safeer Ka Rawaiya, Chand Sawalaat

By Asif Mehmood