Aulad, Nemat Ya Aazmaish
اولاد، نعمت یا آزمائش
کہتے ہیں اولاد کو کھلاؤ سونے کا نوالہ مگر دیکھو شیر کی نظر سے۔ ایک وقت تھا یہ بات حقیقت کے قریب لگتی تھی اور تین دہائیوں پیچھے چلے جائیں تو اس پر خاصا عمل درآمد ہوتا بھی دکھائی دیتا تھا۔ لیکن وقت اور زمینی حقائق بہت سی چیزوں کو تبدیل کر دیتے ہیں۔
ہم جس دور میں رہ رہے ہیں۔ اس دور میں یہ بات نہیں چل سکتی۔ ہمارے بچے ذہنی طور پر میچور، بولڈ ہو چکے ہیں۔ والدین کے ہر حکم پر سر جھکا کر ہاں کہنے کی بجائے وہ کیوں کہہ کر وجہ پوچھتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں نافرمانی نہیں سوال اور تجسس ہوتا ہے۔ اور یہ خود اعتمادی تدریسی ادارے اور والدین خود دیتے ہیں۔ مگر انسان کی فطرت بڑی عجیب ہے۔ ہماری اولاد جب دوسروں کے سامنے سوال اٹھاتی ہے تو وہ ذہین، خود اعتماد اور بہادر ہے اور جب یہی کام والدین کے سامنے ہوتا ہے تو نافرمانی، بدلحاظی یہ اور بدتمیزی کے ضمرے میں آ جاتا ہے۔ ہمارے یہی منافق رویے بچوں کو ذہنی طور پر پریشان کرتے ہیں۔
دوسرے ایک بات یاد رکھیں زہر کھلا کر شہد چٹانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ جب اپنے بچے کو کسی بات پر ڈانٹیں تو فوراََ اسے منانے نا پہنچ جائیں۔ اور نا ہی کسی قریبی رشتے کو اپنے اور بچے کے درمیان بولنے کی اجازت دیں۔ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ نانی، دادی، یا خالہ فوراََ بچوں کی ہمدردی میں میدان میں اتر آتی ہیں۔ اس بارے میں میں تو یہی کہوں گی کہ ماں سے بڑھ کر صرف ڈائن ہی پیار کرتی ہے۔
یہ درست ہے کہ بعض اوقات ناسمجھی میں والدین اپنے بچوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ مگر ان کی محبت پر شک ناگزیر ہے۔ وہ کبھی بھی اولاد کا برا نہیں چاہیں گے۔ ہاں انداز ضرور اچھا یا برا ہو سکتا ہے۔ ایک سب سے اہم بات جو والدین سے کرنا چاہتی ہوں کہ اپنے بچوں کو اپنے لمس سے محبت کا احساس ضرور دلائیں۔ اولاد جتنی بھی بڑی ہو جائے۔ وہ شدت سے اس محبت کو محسوس کرتی ہے۔ وہ محبت جس میں بچے کو اپنے ساتھ لگا کر کمر پر تھپکی دی جاتی ہے۔ پیار سے بال سہلائے جاتے ہیں۔ ماتھا یا گال چوما جاتا ہے۔
آپ کا بچہ منہ سے کہتا ہے کہ اب میں بڑا ہوگیا ہوں۔ لیکن کبھی اس چہرے پر پھوٹتی روشنی کو غور سے دیکھیں۔ جو اس محبت کے اظہار کے بعد اس کے چہرے کو روشن کر رہی ہوتی ہے۔ اپنے بچے کی کسی فرمائش پر فوراََ نا مت بولیں۔ وہ آپ سے ہوائی جہاز کی بھی فرمائش کر لے۔ اچھا بولیں۔ کچھ وقت کے بعد اس سے بحث کے انداز میں سوال کریں۔ آپ کا انداز اتنا خوبصورت اور حقیقی ہو کہ بچہ منہ سے خود بولے کہ ہاں یہ ممکن نہیں ہے۔ رہنے دیں۔
یاد رکھیں انسانی بچہ پالنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ کیونکہ پہلے دن سے آپ صرف بچہ پال نہیں رہے ہوتے بلکہ آپ کا ہر عمل اس کے ننھے ذہن میں محفوظ ہو رہا ہے۔ اور تربیت کا عمل جاری ہے۔ اپنے بچے کو کبھی بھی دین سے دور نا ہونے دیں۔ خالق کی اور اس کے نبی ﷺ کی محبت مختلف مثالوں اور واقعات سے ان کے ذہنوں میں بچپن سے ہی محفوظ کر دیں۔ صرف چند سال کی محنت ہے۔ اس کے بعد انشاءاللہ آپ کا پرسکون دور شروع ہو جائے گا۔
آپ یقین کریں بچے آپ کو سود سمیت وہ محبت لوٹائیں گے۔ جو آپ نے انہیں دی ہوگی۔ میری والدین سے درخواست ہے کہ اپنے بڑھاپے کا ایک مناسب بندوبست خود رکھیں اور اولاد کو آزمائش میں نا ڈالیں۔ ان سے یہ امید مت رکھیں کہ وہ آپ کی ضروریات پوری کریں۔ یقین جانیں اس طرح آپ خود کو پریشانی اور دکھ سے بچائیں گے۔ بچوں کے نصیب اپنے ہاتھوں سے لکھنے کی کوشش میں بے حال مت ہوں۔ آپ کا اور آپ کی اولاد کا خالق اور مالک ایک ہی ہے۔ وہ آپ سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہے۔ وہ اس کی قسمت، اس کی پیدائش سے پہلے ہی لکھ چکا ہے۔ آپ کی بے لوث دعائیں اور خوبصورت تربیت اسے بام عروج پر پہنچا دیں گی۔
ایک سب سے اہم بات اولاد کو اپنے حقوق جتائیں مت بلکہ سمجھائیں۔ اس حوالے سے احادیث اور قرآنی آیات سے کام لیں۔ انہیں بتائیں کہ ماں باپ کا احترام اس لئے ضروری ہے کہ یہ رب کا حکم ہے نا کہ آپ کی ذاتی خواہش۔
یاد رکھیں آپ کی ایک پر خلوص مسکراہٹ ایک پیار کا اظہار انشاءاللہ آپ کو ایک دن سود سمیت واپس ضرور ملے گا۔ اور نا بھی ملے تو دل کو حوصلہ دینے کے لیے میرے رب کی کتاب میں لکھے یہ الفاظ یاد کر لیں کہ اولاد اور مال کو آزمائش قرار دیا گیا ہے۔ تو ہو سکتا ہے آپ کو آزمائش کے لئے چنا گیا ہو۔ آپ کا شمار تو رب نے اپنے پسندیدہ بندوں میں کرلیا۔ پھر خالق سے کیا گلہ۔ وہ جو چاہے کرے۔