Nai Halqa Bandion Par Tahafuzat
نئی حلقہ بندیوں پر تحفظات
اگر صوبے یا حلقے بڑھانا ملکی ترقی میں رکاوٹ ہوتا تو آج امریکہ کی 50 ریاست نہ ہوتیں۔ امریکہ آجکل جو بھی ہے اسکی بنیادی وجہ کامیاب فیڈریشن ہے ہر صوبہ کو مکمل خود مختاری حاصل ہے، مرکزی حکومت کی جو بھی خواہش ہو لیکن ریاست میں پالیسی صرف اور صرف وہاں کے لوگوں کے مفادات کی بنیاد پر بنائی جاتی ہے۔ ہر ریاست اپنی تعلیمی اور معاشی پالیسی بنانے میں مکمل طور پر خودمختار ہے۔
کرونا وائرس جیسی وبا کے دوران بھی امریکہ کے جنوب مشرق میں واقع ریاست نیویارک نے مرکزی حکومت کے برعکس وائرس اور لاک ڈاؤن سے نمٹنے کے لیے اپنی پالیسی بنائی تھی جو کہ کامیاب بھی ثابت ہوئی تھی۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان بھی اپنے طرز کی ایک کامیاب فیڈریشن بن سکے اگر یہ اپنی پالیسیاں چند بااثر طبقوں کے مطابق نہیں بلکہ عوام اور جمہوریت کے مفادات کے تناظر میں بنانا شروع کرے۔
کیونکہ یہاں بھی مختلف اقوام رہتے ہیں ہر قوم کے اپنے مسائل ہیں اور ہر مسلئے کے حل کا اپنا طریقہ کار ہے جو کہ لوگوں کی خواہشات اور مفادات کے مطابق ہے۔ اسلئے ہم چاہتے تھے کہ سابقہ قبائلیوں کے مستقبل کا فیصلہ قبائیل کے لوگوں پر چھوڑا جاتا تو اچھا ہوتا لیکن ریاست نے چند شخصیات کی خواہش کے مطابق قبائل کی شناخت اور مسائل کو زمین بوس کر کے فاٹا کا جبری خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام کیا جس پر آج بھی فاٹا کے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔
فاٹا کی عوام پر انضمام کا غم ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ حکومت نے نئی حلقہ بندیوں میں قبائلی اضلاع سے 6 قومی اسمبلی کے نشستوں کو حتم کیا جس میں کہا جاتا ہے کہ ضلع اورکزئی کو ضلع ہنگو کے ساتھ ملایا جائے گا۔ اورکزئی کی عوام اس فیصلے کو کسی صورت تسلیم نہیں کرینگے کیونکہ ہنگو سابقہ فاٹا کے بعد پاکستان کے سب سے پسماندہ اضلاع میں شمار ہوتا ہے۔
اگر ریاست کا یہ خیال ہے کہ ہنگو کے ساتھ الحاق ہونے سے ضلع اورکزئی کے مسائل حل ہو جائینگے تو یہ انکی غلط فہمی ہو گی کیونکہ ہنگو سابقہ فاٹا کے بعد پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے وہاں کے مسائل کسی لحاظ سے بھی اورکزئی کے مسائل سے کم نہیں ہیں۔ وہاں کے لوگ انہی چیزوں کے لیے ترستے ہیں جن کے لیے ہم رو رہے ہیں۔ وہاں صحت کے سہولیات کے لیے نہ کوئی اچھا ہسپتال ہے لوگ تھوڑے سے سیرئس مریض کو بھی اورکزئی کے لوگوں کی طرح کوہاٹ یا پشاور لے کر جاتے ہیں۔
اب تک نہ کوئی یونیورسٹی بنی ہے، نہ کوئی ڈھنگ کا کالج اور نہ کوئی اور تعلیمی سہولت موجود ہے، لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات یعنی کہ بجلی اور پانی کے لیے ترستے ہیں تو ایسے حالات میں جب ہنگو کی عوام کے پاس اپنے مسائل کا اتنا دفتر بنا پڑا ہو تو ایک نمائندے کے لیے ہینڈل کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہو جائیگا کیونکہ وہ پہلے ہنگو کے عوام کے مسائل پر توجہ دیگا اور پھر جب انکے مسائل حتم ہو جائینگے تو اورکزئی کی طرف توجہ دینگے۔
اور اس کے لیے انتہائی طویل عرصہ درکار ہو گا اسلئے ہم چاہتے ہیں کہ اورکزئی کا اپنا حلقہ اور نمائندہ ہونا چاہیے کہ جس تک عوام کی ہر وقت رسائی ممکن ہو۔ اسلئے اورکزئی کی عوام حکومت اور الیکشن کمیشن سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں اپنا حلقہ واپس بحال کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم پورے اورکزئی کی سیاسی قیادت سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ یہ کسی پارٹی کا اکیلے کا مسلئہ نہیں بلکہ پورے اورکزئی کی عوام کا مسلئہ ہے اور سب سے زیادہ سیاسی قیادت کا۔
کیونکہ خدانخواستہ ایسا ہونے سے وہ مقامی سیاسی قیادت زمین بوس ہو جائی گی جنہوں نے اتنے سخت حالات میں وہاں سیاست کی اور اپنی جانوں اور مالوں کے قربانیاں دیں تو اسلئے اورکزئی کے ہر مکتبہ فکر اور شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کا یہ فرض ہے کہ قوم کو اپنا حق دلانے میں اپنا کردار ادا کرے چاہیے وہ علماء ہو، انتظامیہ میں ہو، اساتذہ ہو، ڈاکٹر کمیونٹی سے ہو یا سماجی کارکنان ہو سب کو چاہیے کہ اپنا کردار ادا کرے۔
اگر اس معاملے میں پوری قوم نے اتفاق کا مظاہرہ نہیں کیا تو جس طرح قومی اسمبلی کی سیٹ حتم کر رہے ہیں اس طرح ایک دن صوبائی سیٹ بھی حتم کرینگے ہماری سیٹ حتم کرنا ایسا ہی ہے جس طرح ہماری شناخت حتم کرنا ہو ہم کسی صورت اپنی شناخت پر سمجھوتہ نہیں کرینگے۔