1.  Home
  2. Blog
  3. Sadiq Anwar Mian
  4. Talaq Ka Bharta Hua Rujhan

Talaq Ka Bharta Hua Rujhan

طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان

زندگی جینا ہر کسی کا حق ہے۔ زندگی میں خوشی پر ہر کسی کا حق ہوتا ہے۔ دنیا میں بچے ہوں، بڑے ہوں، مرد ہو عورت ہوں سب کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ مجھےکسی نہ کسی طریقے سے خوشی ملے اور میں خوشی سے زندگی جی سکوں۔ ہر کوئی اس کوشش میں ہوتا ہے کہ بس خوشی کی زندگی حاصل کر سکوں۔ والدین کے جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو ان کے دل میں یہ باتیں جنم لیتے ہیں کہ بچے یا بچی کا شادی کرنا ہے اسے بہتر مستقبل دینا ہے اور یہ والدین کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل روشن مستقبل کیلئے کوشش کریں۔

سب والدین یہ چاہتے ہیں کہ میری بیٹی کی شادی وہاں ہو جائے جہاں ان کو بہت ساری خوشیاں ملیں۔ جہاں ان کو سکون کی زندگی نصیب ہو۔ والدین جب رشتے کرتے ہیں تو بہت سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ اور وہ اس لئے کہ یہ معاملہ بہت نازک ہوتا ہے۔ شادی کا فیصلہ کرنا اپنی ساری عمر کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ یعنی جب کسی لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے تو وہ اپنے شوہر کے گھر کی ہو جاتی ہے اس گھر سے پھر ان کا جنازہ نکلتا ہے۔

والدین کو یہ ڈر ضرور ہوتا ہے کہ کہیں لڑکی کا گھر برباد نہ ہو جائے، کہیں لڑکی کا گھر جہنم نہ بن جائے۔ کہیں سسرال میری بیٹی کیلئے زحمت نہ بن جائے۔ اور ان سارے معاملات میں سب سے بری چیز طلاق ہوتی ہے۔ جب کسی لڑکی کو طلاق دی جاتی ہے تو ان کی ساری عمر برباد ہوتی ہے۔ ان کی ساری عمر کی خوشیاں، ان کی امیدیں خاک میں مل جاتی ہیں۔ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ طلاق کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ جن سے ہر کوئی باخبر ہے لیکن کوئی توجہ ہی نہیں دیتا۔

میں سمجھتا ہوں آج کل طلاق کی سب سے بڑی وجہ موبائل فون ہے۔ موبائل فون طلاق میں بہت ہی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ آج کل ہر لڑکی کے ہاتھ میں موبائل فون ضرور ہوتا ہے چاہے وہ لڑکی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ہو۔ والدین کی یہ خواہش تو ضرور ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی سسرال میں خوش ہو۔ لیکن والدین یہ کبھی نہیں سوچتے کہ میرے بیٹی کے ہاتھ میں موبائل فون ہے۔ یہ موبائل فون یہی والدین ہی ان کو فراہم کرتے ہیں۔ والدین کو پتہ ہے کہ موبائل فون سے کیا کیا کام لئے جاتے ہیں۔

والدین کو سب سے پہلے اپنے بچوں کو شادی کے بارے میں بتانا چاہیے۔ ان کو سمجھانا چاہئے کہ سسرال میں ایسے زندگی گزارنی چاہئیے۔ بعض مائیں اپنے بیٹیوں کو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ سسرال میں سسر سے ایسے پیش آنا چاہیئے۔ یعنی ان کو کچھ اچھی باتیں نہیں سکھائی جاتی بلکہ غلط قسم کی باتیں سکھائی جاتی ہیں۔ اور وہ اس لڑکی کیلئے طلاق کی وجہ ثابت ہوتی ہے۔ طلاق گھر میں صحیح ماحول فراہم نہ کرنے سے رونما ہوتی ہے۔ جب گھروں میں جنگ جھگڑے شروع ہوتے ہیں تو اس میں پھر طلاق کی زحمت آتی ہے۔

والدین کو چاہیئے کہ سب سے پہلے تو اپنے بچوں کو موبائل فون سے دور رکھیں دوسرا یہ کہ ان کو ایک دوستانہ ماحول فراہم کرے تاکہ بچے اپنے دل کی باتیں والدین کے ساتھ شیئر کر سکیں۔ والدین کو اپنے بچوں کی شادیاں سوچ سمجھ کر کرنی چاہیئے۔ یہ ایک دن کی بات نہیں ہوتی، ایک سال کی بات نہیں ہوتی بلکہ عمر بھر کی باتیں ہیں۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں ان کو کیا خبر کہ کون میرے لئے بہتر ہے کونسا گھر میرے لئے بہتر ہے کونسا رشتہ میرے لئے بہتر ہے۔

والدین جب سوچ سمجھ کر اور اپنے فرائض صحیح طریقے سے ادا کر اپنے بچوں کی شادیاں کرائیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ انشاء اللہ کبھی بھی طلاق کی باتیں سامنے نہیں آئیں گی۔ سب سے برا عمل زندگی میں طلاق ہے۔ لڑکی کو ایک طرف طلاق ہو جاتی ہے۔ تو دوسری طرف وہ لڑکی دوسری شادی کیلئے اہل نہیں ٹہرائی جاتی سب معاشرے میں اس کو برا بھلا کہتے ہیں کہ یہ تو طلاق یافتہ ہے۔ اور مختلف قسم کے بے ہودہ الفاظ ان کے بارے میں نکالتے ہیں۔

اور یہ طلاق یافتہ لڑکی پھر والدین کے گھر میں عمر بھر آنسو روتی ہے۔ ان کی قدر میں کمی ہوتی ہے۔ کوئی بھی اس لڑکی کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے حتیٰ کہ ان کے والدین بھی ان کی صحیح قدر نہیں کرتے۔ اگر لڑکی اکیلی ہوتی ہے تو پھر بھی صحیح لیکن اگر ان کے پاس بچے ہوتے ہیں تو وہ پھر قیامت کا منظر پیش کر رہی ہے۔ وہ لڑکی اپنا غم تو اپنا بچوں کیلئے دن رات روتی رہتی ہے۔

ان کی روزمرہ ضروریات کے بارے میں سوچتی ہے۔ کیونکہ لڑکی کے والدین تو ان کا بےجا خرچہ برداشت نہیں کر سکتی ان کے گھر کی اپنے ضروریات زیادہ ہوتی ہیں۔ تو پھر یہ بچے کبھی کباڑ خانوں میں جاتے ہیں اور کبھی بازاروں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ ان والدین کو چاہیئے کہ اس طرح کی باتوں سے اس طرح کے واقعات سے سو مرتبہ سوچنا چاہئے کہ بیٹی کا رشتہ کہاں کرنا ہے۔

Check Also

Doctor Asim Allah Bakhsh

By Amir Khakwani