Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sadiq Anwar Mian
  4. Pakistan, Hukmaran Aur Awam

Pakistan, Hukmaran Aur Awam

پاکستان، حکمران اور عوام

ایک وقت تھا کہ پاکستان کی عوام امیر سمجھی جاتی تھی۔ پاکستان خود تو امیر نہیں ہے لیکن اس کی عوام امیر ہوا کرتی تھی۔ اور اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ پاکستانی زیادہ تر باہر ملکوں میں محنت مزدوری کرتے تھے اور اچھے خاصے پیسے کماتے تھے۔ لیکن اب وہ وقت بھی چلا گیا ہے۔ وہ سب عوام پاکستان میں رہ رہی ہے۔ باہر ملکوں میں پہلے کوئی ہے نہیں اور اگر ہے تو بس اس سے صرف اس کے گھر کا گزارا ہوتا ہے یعنی وہ پیسے اب نہیں ہیں جس سے پاکستان کی عوام بڑے بڑے گھر بناتے تھے، بڑی بڑی گاڑیاں خریدتے تھے۔ بڑے بڑے کاروبار کیا کرتے تھے۔

پاکستان کی عوام کی بے بسی آج اس حد تک آ چکی ہے کہ وہ اب اپنے لئے ایک وقت کی روٹی پیدا نہیں کر سکتے۔ سیاستدانوں نے عوام سے ان کے دو وقت کا نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس میں سارا قصور ہم عوام کا ہے۔ سیاستدان اگر آگے بڑھ رہا ہے تو میری وجہ سے، سیاستدان اگر بنگلے میں رہتا ہے تو میری وجہ سے، سیاست دان اگر بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتا پھرتا ہے تو میری وجہ سے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ آخر کار سیاستدان آگے کیوں ہے اور ہم عوام پیچھے کیوں ہیں؟ لیکن اس پر کوئی بھی راضی نہیں ہے۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اس کامیاب سیاست دان کو اور مضبوط اور مستحکم بنا رہے ہیں جو کہ پہلے سے ہی طاقتور ہے۔ پاکستان کی عوام اگر آج غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں تو اس کی وجہ ہی یہی ہے کہ پاکستان کی عوام سیاست دان کیلئے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ ہر ایک سیاستدان برائے نام ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں تاکہ عوام کو بے وقوف بنایا جا سکے۔ میں سمجھتا ہوں اگر اس ملک کی رسی کسی کے پاس ہے تو وہ ہے ہم عوام۔

کراچی سے خیبر تک اس سیاستدان کے خلاف نکلنا چاہیئے۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ ملک کیسے ایک اچھا اور مستحکم ملک بنتا ہے۔ خرابی ہم عوام میں ہے کمی ہم عوام میں ہے۔ آخر کیوں ہم ایک ایسے شخص کو مزید تقویت دیں جو کہ پہلے سے امیر ہوں، پہلے سے چور ہوں، پہلے سے ڈاکوں ہوں، پہلے سے کرپٹ ہوں۔ مجھے آپ بتائیں پاکستان کا وہ سیاست دان جس پر کرپشن کے الزامات نہ ہوں اور الزامات بھی چھوڑیں آپ خود اندازہ لگائیں کیا پاکستان کے سیاستدانوں میں آپ کی نظر میں ایسا کوئی ہوگا جو کہ چور نہ ہوگا۔

کبھی نہیں۔ کراچی سے خیبر تک عوام انقلاب نہیں آئے گا تو ہم عوام ایسے ہی ذلیل ہوتے رہیں گے۔ مجھے سرکار کی نوکری کی ضرورت نہیں ہے مجھے روٹی کی ضرورت ہے مجھے سستی چیزوں کی ضرورت ہے۔ مجھے کاروبار کی ضرورت ہے۔ مجھے ایک سیاستدان نے سرکاری نوکری پر لگایا تو میں کامیاب ہوگیا کبھی نہیں۔ یہ سوچ بالکل غلط ہے۔

مجھے سرکاری نوکری دلا دی تو میں ساری عمر ان کیلئے زندہ آباد مردہ باد کے نعرے لگاؤں گا۔ اور میری تنخواہ میں میرا گزارا بھی نہیں ہوگا۔ لیکن میں مجبوری کی خاطر ان کیلئے نعرے لگاؤں گا۔ اگر نعرے نہیں لگاؤں گا تو وہ مجھے نوکری سے برخاست کریں گے۔ کیوں ہم اپنے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا رہے ہیں۔ آخر ہم سوچتے کیوں نہیں؟ آخر کار اس ملک کے عوام کا بنے گا کیا؟ کیا ہم عوام ایسے ہی ذلیل و خوار ہوتے رہے گے۔

Check Also

Guzarte Waqt Ka Sabaq

By Ismat Usama