Nojawan Bahar Ja Rahe Hain
نوجوان باہر جارہے ہیں
روشن مستقبل ہر کسی کا ایک خواب ہوتا ہے۔ دنیا میں ہر شخص یہ ضرور سوچتا ہے کہ میں نے کیا کرنا ہے۔ مجھے کیا کرنا ہے کیا کرنے کی ضرورت ہے۔ محنت تو سب ہی نے کرنا ہے۔ ہر شخص کی اپنی ایک حیثیت ہوتی ہے۔ ہر شخص کی ایک خواہش ہوتی ہے۔ کوئی کیا سوچتا ہے کوئی کیا۔ یہ پوری دنیا کا ایک رواج ہے، کہ آپ دنیا میں رہے گے تو کچھ نا کچھ کریں گے۔ کچھ محنت کریں گے۔ کسی کام میں لگے رہوں گے۔ کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہتا کہ میں کچھ کر نا پاؤ مجھے کچھ نہ ملے۔
مرد و عورت سب اس دنیا میں اس سوچ پر کام کاج کرتے ہیں، کہ ہم کچھ کر دکھائیں کچھ بن جائے کچھ حاصل کرے۔ کوئی خاص مقام حاصل کرے۔ یہ روٹین کی باتیں ہیں۔ ہم جب سکول میں پڑھتے تھے، تو ہمارے اساتذہ کرام بار بار یہ کہتے تھے کہ عزیز طلباء آپ نے زندگی میں بہت دوڑ لگانی ہے۔ زندگی میں بہت دوڑ باقی ہے۔ ہم اس وقت حیران رہتے تھے، اور ہم یہ پوچھتے بھی تھے کہ سر یہ دوڑ کیسی دوڑ ہے۔ ہم اس وقت دوڑ ورزش والی دوڑ کو کہتے تھے کہ یہ دوڑ ہے۔ اساتذہ کرام کہتے تھے کہ آپ تب یہ بات سمجھے گے جب وقت اجائے گا۔
آج وہ دور آیا جو کہ بھاگ دوڑ کا دور ہے۔ ہر کوئی سبقت لینے کی کوشش میں ہے۔ مرد و عورت سب زندگی کی بھاگ دوڑ میں رہتے ہیں۔ سب دنیا کی روشن مستقبل کی منصوبہ بندی کی سوچ میں رہتے ہیں، کہ کیسے ہم ایک کامیاب زندگی گزارے گے، کیسے ہم آرام کی زندگی گزارے گے۔ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں، یہاں روشن مستقبل بنانا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ انسان تو کوشش کرتا ہے کسی جاب کی حاصل کرنے کیلئے اس کیلئے دن رات محنت کرتا ہے۔ اس کیلئے اچھی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ اپنے پیسے خرچ کرتا ہے۔ لیکن پاکستان میں پھر وہی جاب پھر بھی نہیں ملتی۔
آپ جتنے بھی قابل ہوں، آپ نے خواہ جتنی بھی نمبرز لئے ہوں، لیکن یہ جاب پھر بھی آپ کو نہیں ملی گی کیوں؟ کیونکہ آپ کے پاس مزید رشوت نہیں ہے کہ آپ اپنی قابلیت کے باوجود یہ نوکری حاصل کرسکے۔ آپ جتنے بھی زور لگالیں نوکری نہیں ملے گی۔ آپ اس جاب کیلئے موزون امیدوار ہونگے، لیکن آپ کو نہیں ملے گی۔ ملے گے تو ایک امیر شخص کے بے کار بیٹے کو ملے گی۔ کیونکہ وہ امیر ہے ان کے پاس پیسہ بہت ہے۔ وہ رشوت دے سکتا ہے۔
کل ہی میں ایک اخبار پڑھ رہا تھا تو ایک خبر میرے سامنے سے گزری، گیلپ سروے رپورٹ تھی، جس میں لکھا تھا کہ 94 فیصد نوجوان ملک پاکستان چھوڑنے کے خواہشمند ہیں۔ یعنی سو میں سے 94 فیصد نوجوان ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ 56فیصد تنگدستی، 24 فیصد بد امنی، 14فیصد تاریک مستقبل کی وجہ سے ساڑھے نو سال میں 62 لاکھ 20 ہزار سے زائد پاکستانی دیار غیر جاچکے۔ اس خبر نے مجھے بہت مایوس کیا۔ اس خبر پر آپ اگر زرا بھی سوچیں تو یہ ہمارے لئے تباہی ہے۔ جب اتنی جوان باہر دنیا میں جائے گے تو یہ ملک خاک ترقی کرے گا۔ کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہتا کہ میں آپنے ملک سے باہر ملک میں نوکری کرو، لیکن جب ملک کے حالات ایسے ہونگے تو ضرور نوجوانوں کو باہر جانا پڑے گا۔
ہمارے نوجوان الحمداللہ قابل ہیں۔ اتنے قابل اور ذہین ہیں، کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن وطن عزیز کا مسئلہ یہ ہے کہ رشوت اور سفارش کے بغیر آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔ ہمارے ملک کے حالات تو یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ آپ اگر اپنے لئے قومی شناختی کارڈ بنواتے ہیں تو اس کیلئے بھی آپ کو سفارش کرنی پڑی گی۔ حالانکہ یہ آپ کا حق ہے کہ آپ پاکستان میں جہاں بھی چاہے قومی شناختی کارڈ بنواسکتے ہیں۔ جب تک پاکستان میں رشوت اور سفارش کلچر کا خاتمہ نہیں ہوگا، یہ ملک ترقی نہیں کرسکے گا۔ یہاں نوجوان کو ان کا حق نہیں دیا جائے گا نوجوان باہر ملکوں میں جاکر ان کو ترقی دے گا۔
پاکستان کے جوان اتنے قابل اور ہونہار ہیں کہ مختلف کھیلوں میں اپنے ملک کا نام روشن کر چکے ہیں۔ باہر دنیابھی سوچتی ہے کہ اتنے قابل جوانوں کو یہ مواقع آپنے ہی ملک میں کیوں فراہم نہیں کئے جا رہے۔