Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sadiq Anwar Mian
  4. Hotel Ka Waiter

Hotel Ka Waiter

ہوٹل کا ویٹر

حسن سلوک ہر کسی کے ساتھ اچھا کرنا چاہیئے۔ آپ جس معاشرے میں بھی ہوں حسن سلوک اچھا برتاؤ رکھنی چاہیئے۔ آپ جہاں بھی زندگی بسر کر رہے ہوں وہاں کے لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش ہونا چاہیئے۔ ہم روز ہوٹلوں میں جاتے ہیں اور مختلف ہوٹلوں میں جاتے ہیں اور وہاں مختلف قسم کے کھانے کھاتے ہیں۔ میں نے خود ایک بات نوٹ کی ہے۔ کہ ہوٹلوں میں عمومآ عوام ویٹر کو بری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور جو ان کو بری نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ویٹر غریب ہے اسی لئے اپنا رعب اس بیچارے ویٹر پر ڈالتے ہیں۔

یہ ایک انتہائی غلیظ قسم کی حرکت ہے۔ کہ کوئی ہوٹل میں جاکر بیچارے، غریب ویٹر پر دباؤ ڈالتے ہیں، اور کوئی چیز مانگتے ہیں تو ویٹر سے کہتے ہیں کہ جلدی کرو، یہ لاؤ جلدی کرو یہ کرو وہ کرو حالانکہ ویٹر کھڑا ہی اس کام کیلئے ہے کہ آپ کیلئے کھانا لائے۔ لیکن ہمارا رویہ ان کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ ویٹر ایک غریب بندہ ہے۔ اپنی غریبی اور بے بسی کی وجہ سے یہ سب کچھ کر رہا ہے اور برداشت کر رہا ہے۔

یہ سب کچھ ہم زیادہ تر کن ہوٹلوں میں کر رہے ہیں وہی ہوٹلوں میں جو کہ ایک عام چھوٹے بازاروں کے ہوٹل ہوتے ہیں۔ ہم جب کہیں فائو سٹار ہوٹل میں جاتے ہیں تو کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ ہوٹل کے ویٹر کے ساتھ سخت لہجہ میں بات کریں کیوں؟ کیوں کہ ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ اگر ہم نے ان کے ساتھ سخت رویہ استعمال کیا تو اس ہوٹل کا مالک امیر ہے شاید اپنے ویٹر کے حق میں بول پڑے ہمارے خلاف۔

ہمارا رویہ جب بھی سخت ہوتا ہے وہ ایک غریب کیلئے سخت ہوتا ہے۔ ویٹر کو بھی معلوم ہے جو یہ سب کچھ برداشت کر رہے ہیں لیکن وہ بیچارے کیا کہہ سکتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں غریبی ان کو یہ سب کچھ دکھاتی ہے۔ ویٹر بھی دل میں سوچتے ہیں کہ یا اللہ یہ میں کیا سن رہا ہو یہ میں کیا برداشت کر رہا ہوں لیکن دوسری طرف دیکھتا ہے تو غربت نے ان جو چاروں شانے چت کر رکھی ہوتی ہے۔

میں بذات خود اس قسم کی حرکات سے انتہائی ڈرتا ہو مجھے انتہائی ڈر کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ میں جب کسی دوسرے کی آواز سنتا ہو کسی ہوٹل میں تو میرے جسم کھپکپاتی ہے، کہ یا اللہ یہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ یہ ویٹر بھی کسی کا لاڈلا ہے، کسی ماں کا لاڈلا ہے لیکن غربت نے یہاں کھڑا کردیا ہے۔ حالانکہ وہ خود بھی نہیں چاہتا اور نہ ہی ان کے والدین چاہتے ہیں کہ ہمارا لاڈلا اس قسم کی باتیں برداشت کرے لیکن کیا کریں غربت انسان کو اس قسم کی دن دیکھاتے ہیں۔

Check Also

Muhib e Watan Bangali

By Syed Mehdi Bukhari