Tareekh Ka Jabar
تاریخ کا جبر
تاریخ کتنی جابر ہے، کسی کا کوئی احترام نہیں کرتی۔ جب بھی اپنے کرنے پہ آئے تو معصومیت کا لبادہ اوڑھنے والے ظالموں کے لبادے اور چادریں چاک کرکے ظلم کا چہرہ ننگا کردیتی ہے۔ ظالم قوم کو قوموں کے بھرے بازار میں بے نقاب کر دیتی ہے۔ جب کوئی قوم نکمی ہوجائے یا اپنے درمیان عدلِ اجتماعی جیسی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیتی ہے اور وہ قوم قوموں کے مارچ کے قابل نہ رہے تو تاریخ اسے قوموں کے مارچ سے باہر نکال کر کوڑے دان میں پھینک دیتی ہے۔ تاریخ کسی کی قومیت، جعرافیائی اہمیت اور فوجی و معاشی طاقت کی پرواہ نہیں کرتی۔ یہ جب بھی اپنا فیصلہ سنانے پر آتی ہے تو اچھے اچھوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں دیر نہیں کرتی۔
تاریخ کا جبر دیکھئے کہ کل تک جو قوم قوموں میں مظلوم کھڑی تھی اور دنیا بھر میں ہالوکاسٹ کا رونا روتی تھی۔ آج تاریخ کے محکمہ قضاء نے اس سے سارے پردے چاک کر دیئے ہیں۔ ظلم کا چہرہ نمودار کردیا ہے۔ جو قوم کل تک مقتولوں پہ روتی تھی آج قاتل کی حیثیت سے تاریخ کی عدالت میں کھڑی ہے۔
ہالوکاسٹ میں یہودیوں کا قتل عام ہوا تھا، وہ بھی بہت جابرانہ طریقے سے ہوا تھا، یہ ظلم کی انتہا تھی۔ ہر قوم کو جینے کا حق حاصل ہے۔ کسی بھی قوم سے جینے کا حق نہیں چیننا چاہیئے۔ ہالوکاسٹ کے بعد یہودیوں نے پوری دنیا میں اپنی مظلومیت کی چادر اوڑھ لی، یہ اسکا حق تھا۔ ایسا ہونا چاہیئے تھا کیونکہ ان پر ظلم ہوا تھا۔ مگر جس معاملے پر کل پوری قوم رو رہی تھی اور اسے ظلم کی انتہا کہتی تھی وہی سب کچھ اسرائیل اور اسکی معاونوں کی شکل میں خود کرنے لگی ہے۔
سات اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا یہ حملہ حماس کے لئے اسرائیلی مظالم اور جبر سے آزادی کا خواب تھا۔ اس حملے کے بعد اسرائیل نے حماس سمیت فلسطینوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کیا۔ اس حملوں میں بچوں، بوڑھوں اور خواتین کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ اسرائیلی فوج چن چن کر عام شہریوں کو مارنے لگی۔ اس جنگ میں نہ بچے محفوظ، نہ بوڑے، نہ عورتیں اور نہ جوان مرد و عورت۔ سکول، مسجد، چرچ اور ہسپتال سب پر بم برسائے گئے۔ مسلح اور غیر مسلح کا کوئی فرق روا نہ رکھا گیا۔ سب پر بندوقیں اور توپیں چلائی گئی۔ میزائل داغے گئے۔ فلسطینیوں کا قتل عام شروع ہوا جو اب بھی جاری ہے۔
انسانی حقوق اور بین القوامی قوانین کی دھجیاں اڑائی گئی۔ کل جس چیز پر پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا اور جس چیز کو انسانوں کے بیچ تاریخ کا سب سے بڑا گناہ مانا جا رہا تھا آج خود اسرائیل اور اسکے معاونین اس گناہ کے جرم میں عدالت میں کھڑے ہیں۔ آج خود اسرائیل، جو ایک یہودی مملکت ہے اور اسکے حواری اس گناہ کے مرتکب ہیں۔ اگر میں یہ کہوں تو زیادہ درست ہوگا کہ یہ اس مرتبہ نہیں بلکہ جب بھی فلسطین اور اسرائیل کی لڑائی ہوئی ہے اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔ مضخکہ خیزی یہ ہے کہ جب بھی فلسطین پر گولہ بارود کی آگ برسائی جاتی تھی تو یہ ملک اور اسکے بین القوامی حواری اپنا سفارتی و تعزویراتی طاقت کو استعمال کرکے تاریخ سے منہ چپانے کی کوشش کرتے اور اگر اس سے نہ ہوتا تو ہالوکاسٹ کا رونا رو کرخود کو مظلوموں کے صف میں کھڑا کرلیتے۔ باوجود اسکے کہ خود ظالم بن چکا تھا اور ہے مگر پھر بھی مظلوم قوموں کے صف میں رہ جاتا۔
مگر اس مرتبہ تاریخ کے محکمہ قضاء کو ایسا ہرگز منظور نہ تھا۔ تاریخ کے محکمہ قضاء نے شاید فیصلہ کرلیا ہے کہ اسرائیل ننگا ہوکر تاریخ میں قاتل کے نام سے جانا جائے۔ ویسے اسرائیل کی فلسطینیوں کا قتلِ عام اور اپنایا گیا دوغلا پن والی معصومیت پہلے بھی تاریخ لکھ رہی تھی، مگر اس طرح نہیں کیونکہ یہ موجودہ قوموں کے مارچ میں معصوم بن کر جا رہے تھے۔ جنوبی افریقہ کی 29 دسمبر کی درخواست پر عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کی جنگی جرائم کا کیس سننا شروع کیا۔ اب جب تک کیس عالمی عدالت میں رہے گا دنیا میں اسرائیلی مظالم کی بحث ہوتی رہے گی۔
دوسری بات یہ کہ اب اسکی کی گئی زیادتیوں کا ریکارڈ اکٹھا اور محفوظ کیا جائگا۔ یوں تاریخ نے اسکی معصومیت کے پردے چاک کردیئے۔ اس کو قاتل کی حیثیت سے عدالت میں کھڑا کیا۔ عدالت قاتل نہ پکارے تب بھی قاتل کی حیثیت سے تاریخ نے لکھنا شروع کردی ہے۔ اب اسرائیل اور اسکی یہودی لابی ہالوکاسٹ سے متاثرہ مظلومیت کے پیچھے چپ کر مظلوم رہ کر قتلِ عام نہیں کر سکتا۔ اب قتل ہوگا تو قاتل پکارا جائے گا۔ قوموں کی نظریں اب اسرائیل پر ہے۔
تاریخ کا جبر دیکھو، کل کا مظلوم آج ظلم کے جرم میں تاریخ کی عدالت میں کھڑا ہے۔ جو کل دوسروں سے وضاحتیں مانگ رہا تھا۔ اب خود وضاحتیں اور صفائیاں دے رہا ہے۔ تاریخ نے خود کو سیدھا کرنا شروع کردیا ہے۔ عالمی عدالت اسے قتلِ عام کا مرتکب ٹہرائے یا نہ ٹہرائے مگر تاریخ کی عدالت میں یہ قاتل بن چکا ہے۔
اس منظر سے ہمارے مہربانوں کو بھی سبق سیکھنا چاہیئے۔ چھ سات دہائیوں سے اپنی من مانیوں کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اگر ان پر تاریخ کے محکمہ قضاء نے فیصلہ سنایا تو ان کے ساتھ ملک کو بھی بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ویسے بھی انکی من مانیوں اور تجربات سے ملک کو آج تک کوئی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ صرف نقصان ہی ہوا ہے۔ اسلئے بہتر یہی ہے کہ اپنی من مانیاں چھوڑ کر قانون کے دائرے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔