Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sadiq Amin
  4. Pakistan Band Gali Mein

Pakistan Band Gali Mein

پاکستان بند گلی میں

ملک بند گلی میں ہے، لوگ روڈوں پر ہیں، جمہوریت کی لاش کندھوں کی بجائے جوتوں پر آگئی ہے۔ شور و غل کا بازار گرم ہے۔ انتخابات ہوئے مگر کوئی نہیں مانتا کیونکہ عام آدمی کی نظر میں انتخابات نہیں دھاندلا ہوا ہے۔ قبولیت جیت گئی یا نہیں مگر مقبولیت ضرور ہار گئی ہے۔ کروڑوں لوگوں کی رائے ہار گئی اور چند سو بازی لے گئے۔

اجیرن زندگی اور مشکل لمحوں میں قوم نے ہزاروں خواہشیں باندھ کر اور سینکڑوں جانوں کو خطریں میں ڈال کر انتخاب آخر کار مکمل کر لیا۔ کمر توڑ مہنگائی اور کے پی و بلوچستان میں عدمِ تحفظ کے مسائل تھے مگر قوم نے الیکشن کا خواب پورا کرکے دیکھایا۔ الیکشن سے چند دن قبل دہشت گردی کے کئی بڑے وقوعے ہوئے جن میں باجوڑ اور بولان کے وقوعے سر فہرست ہیں مگر پھر بھی قوم نے غیر متززل ہمت جتا کر سیاسی استحکام کی خواہش لئے انتخاب کا عمل مکمل کیا۔

2024 کا انتخاب اس حوالے کافی اہمیت کا حامل تھا کہ یہ ایک بہترین موقع تھا سیاسی استحکام لانے کا۔ 2018 کے دھاندلی زدہ الیکشن، پھر پی ٹی آئی کی حکومت گھر بیجھنے، پی ٹی آئی کے احتجاج، 9 مئی واقع اور اسکے بعد پی ٹی آئی کے خلاف کئے گئے کریک ڈاون نے جس طرح سیاسی ماحول کو عدم استحکام کا شکار کیا اور شکار بھی ایسا کہ بات چیت کے راستے بند ہوئے، اسلئے ان صورتِ حال سے نکلنے کا 2024 الیکشن ایک نادر موقع تھا۔ اس کے علاوہ رائے عامہ سامنے آنے اور عام آدمی کا ریاست سے جوڑنے کا بہترین موقع تھا۔ بلوچستان، کے پی اور گلگت کی ایک بہت بڑی اکثریت ریاست سے ڈِس انفرچائز ہیں۔ یہ اداروں کی روا رکھی گئی رویوں سے اور کچھ اختیار کی گئی پالیسیوں سے ایسا ہوا ہے۔ اسلئے یہ اچھا موقع تھا کہ انکی بات سنی جائے اور رائے عامہ کو قبول کرکے انکی پسندیدہ قیادت کو موقع دیکر عوام کو اپنے ساتھ کچھ حد تک جوڑا جائے۔

شاید فیصلہ کرنے والوں کو نہ تو سیاسی استحکام چاہیئے اور نہ ہی عام آدمی کا ریاست کے ساتھ جوڑنا، اسلئے عوام کی حقِ رائے دہی جوتوں تلے روندا گیا۔ طاقتوروں نے انتخابات کو بہت بے ڈھنگے انداز میں منیج کئے۔ کروڑوں لوگوں کی رائے کی تضحیک کی گئی۔ انتخابات سے پہلے جتنے لوگ روڈوں پر تھے اس سے زیادہ روڈوں پر آگئے۔ جیتنے والے اور ہارنے والے دونوں دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں۔ ایک شور و غل مچا ہوا ہے۔ مقبولیت کا جنازہ نکالا گیا۔ ملک کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا گیا کہ کوئی حکومت تک لینے کو تیار نہیں، استحکام آنا تو دور کی بات ہے۔ کروڑوں لوگ جو اس انتخاب کے زریعے ریاست کے قریب آنے تھے، انہیں دور پھینکا گیا۔ ایک بہت بڑی اکثریت ڈِس انفرچائز ہونے کی طرف دھکیل دیا گیا۔ اداروں پر اعتماد آور کمزور ہوگئی۔ ملک استحکام کے بجائے آور عدمِ استحکام کی طرف دھکیل دیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ اس الیکشن کی شفافیت پر سوالات کیوں کھڑے کئے گئے؟ عوام کا منڈیٹ ماننا کیوں مشکل ہوگیا ہے؟ ماورائے قانون سیاسی تجربات نے ایک مرتبہ اس ملک کو دولخت کر دیا ہے پھر یہ تجربات بار بار کیوں کئے جا رہے ہیں؟ ہر الیکشن کو کیوں متنازعہ بنایا جاتا ہے؟ ہر آنے والا پرانے کے نقش قدم پر کیوں چل رہا ہے؟ جنرل فیض اور جنرل باجوہ کی وراثت کوئی اتنی اچھی تو نہ تھی۔ یہ کون سمجھائے کہ اسلاف کی ہر عادت کو جاری رکھنا ضروری نہیں ہوتا۔ قومیں آگے بھی جاتی ہیں اور یہ تو خودکشی کرنے والے اقدامات ہیں پھر کیوں انہیں دہرائے جاتے ہیں؟ معیشت کو جس جگہ لاکر کھڑا کیا گیا ہے اس کے بعد یہ دانش مندی سمجھ سے بالاتر ہے۔

ویسے ان منیجروں سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ جناب بتائیں کہ اس ملک کو کس جگہ لاکر کھڑا کیا؟ یہ ملک ایک مرتبہ ٹوٹ چکا ہے۔ ابھی مشکل سے ڈیفالٹ سے نکلا تھا پھر بھی تجربہ کیا گیا۔ یہ ملک جس جگہ کھڑا کیا گیا ہے یہ ناقابل حکمرانی ہے۔ اگر کوئی کوشش کریں بھی تو کیسے حکمرانی کریگا؟ کسی کے پاس مینڈیٹ نہیں رہا۔ سیاسی استحکام کا جنازہ پڑھا جا چکا ہے۔ حکومت بننے سے پہلے گرانے کے لئے موضوع بنایا گیا ہے۔ جب حکومت ہی نہیں چلنے والی تو معیشت پر بات کیسے کرسکتے ہیں۔

بس اس بات کا شکر ہے کہ شوق سلامت رہا! اسلاف کی تاریخ زندہ رکھی گئی۔ 9 فروری کی رات ملک تماشا بن گیا اور دنیا تماشائی رہی۔ قوم کی رہی سہی عزتِ نفس جوتوں تلے روندا گیا۔ طاقتور اور طاقتور بن گئے، قوم کمزور سے لاغر بن گئی۔ بس اس بات کا شکر ہے کہ شوق سلامت رہا۔

قوم کے ساتھ جانا اگر مشکل بھی ہو تب بھی ہمیں جانا چاہئیے کیونکہ یہ اس قوم کی ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی کو پار لگا سکتی ہے۔ جس جگہ ہم کھڑے اس سے آگے موت ہے۔ اسلئے اب تو اپنے کام درست کریں شاید خدا توڑا رحم کریں۔ ویسے بھی ہمیں ایک نہ ایک دن قوم کی رائے کو قبول کرنا پڑے گا تو کیوں نا اب سے ہی عزم کریں۔ مقبولیت اور قبولیت کا فرق ختم کریں۔ جو الیکشن جیتے وہی حکومت بنائے اور وہی قوم کے فیصلے کریں۔

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra