Ikhtera e Manshoor
اختراعِ منشور
یہ منشور، لائحہ عمل یا کچھ اور ہے؟ نعرے، دعوے اور گالیاں ہیں۔ صدائیں کانوں کو پھاڑ رہی ہے۔ دعوے ببانگ اور ایسے کہ لوگ عش عش کرنے پر مجبور۔ پاکستان کو سپر پاور بننے میں ابھی الیکشن حائل ہے۔ بس 8 فروری کا انتظار ہے۔ نعرے انقلاب لانے سے چند سیکنڈ کے فاصلے پر ہے۔ اشتہارات پاکستان کی درخشاں مستقبل دیکھا رہے ہیں۔ حل ہر سیاسی جماعت کی منشور میں چپھا ہے۔ بس ووٹ دالنے کی دیر ہے۔
پاکستان میں ہونے والے ہر الیکشن کا یہ حال ہے مگر پھر بھی آج تک حال بدحال، قسمت بری، معیشت تباہ اور معاشرہ جنجھال ہے۔ بھوک کی وجہ سے خودکشیاں ہورہی ہیں۔ معیشت ڈیفالٹ لائن چھونے سے نینوسنٹی میٹر دور ہے۔ لاقانونیت اور بدآمنی آج بھی غرغراتے دھوم مچلکے دمال مچا چکی ہیں۔ دوسری وجوہات کے ساتھ ساتھ ہر حکومت کی آنے سے پہلے تیاری نہ کرنا اور صحیح حالات کا ادراک نہ کرنا ہے کیونکہ منشور اکھٹا کرتے وقت سیاسی جماعتیں بہت لاپرواہی برتتے ہیں۔
ہر سیاسی جماعت میں کچھ ایسے لوگ ضرور بیٹھے ہوتے ہیں جو منشور کی بھاری ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں۔ وہ ہر فنِ مولا ہوتے ہیں۔ معیشت، معاشرہ، اور تعلیم بلکہ تمام فنون کے متعلق منشور میں وہ چیزیں شامل کرتے ہیں۔ ملک کے مستقبل کی تمام پالیسیاں انکے دماغ سے نکلتی ہیں جو کبھی الیکشن کے بعد ایک دن بھی پالیسی کی شکل اختیار نہیں کرتا۔ وہ پرانے منشوروں کو آگے پیچھے کرکے دوبارہ چھاپتے ہیں۔ جس میں کوئی بھی چیز قطعی نہیں ہوتی بلکہ صرف خواہشات کا ایک مجموعہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر پارٹیاں الیکشن کمپین میں اس لکھی ہوئی کتاب یعنی منشور کا ذکر نہیں کرتے۔ بلکہ ایک بیانیہ اور کچھ خاص قسم نعروں کے پیچھے پناہ لیتے ہیں۔
یوں کمپین کرتے ہوئے سیاسی جماعتیں منشور اور الیکشن پلان کے نام پر نعرے لگاتے ہیں، دعوے کئے جاتے ہیں اور مخالف کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ نعرے اور دعوے ایسے ایسے کہ بندہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اگر آج ٹیپو سلطان زندہ ہوتے تو اس جماعت میں ہوتے اگر شیرشاہ سوری زندہ ہوتے تو اس جماعت میں ہوتے۔ الیکشن ہونے کی دیر ہے وگرنہ پاکستان امریکہ سے آگے نکل رہا ہے۔ امریکہ کو ڈر ہے کہ اگر فلاں جماعت کی حکومت آئی تو اسکا کیا ہوگا۔ سعودی عرب، دبئی اور چین تو فلاں کے علاوہ کسی کے ساتھ بات تک نہیں کرتے۔ فلاں جماعت غریبوں کی بات کرتی ہے۔ یوں اس طرح کے کئی کھوکھلے نعرے اپنائے جاتے ہیں۔
ان کھوکھلے نعروں، جھوٹے دعوں اور بے بنیاد الزامات کی وجہ سے عوام میں سیاسی جماعتوں کے اعتماد کا گراف بہت نیچے گر چکا ہے۔ عام آدمی کو ٹھوس عوامل کے ساتھ یقین دلانا ضروری ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں پر اعتماد کریں۔ اسکے علاوہ اخلاقی طور بھی سیاسی جماعتوں کو چاہئیے کہ وہ سچ کہے، پلان جامع رکھے اور قابلِ عمل و معاونِ مسائلِ حل منشور پیش کریں۔
اسکے لئے پہلے تو ضروری یہ ہے کہ ایک خاص گروپ، جو ہر سیاسی جماعت میں پہلے سے متعین ہونے کے علاوہ پروفشنل افراد کی بھی مدد لی جائے۔ جو سٹرٹیجی اور منشور بنانے کا ہنر جانتے ہو۔ اسکے علاوہ مختلف فنون کے ماہرین اور سول سوسائٹی کی بھی مدد لی جائے تاکہ متعلقہ شبعہ ہائے کے متعلق ٹھوس اصلاحاتی حکمت عملی یا درست اعداد و شمار منشور کا حصہ بنے۔ بہت سے پالیسی نقطے الیکشن سے پہلے طے ہوجانے چاہئیے تاکہ قوم کسی تاریکی میں نہ رہے اور نعروں اور دعوں کی بجائے پالیسی نقطہ نظر پر کسی سیاسی جماعت کو ووٹ دیں۔
اس کے علاوہ منشور بناتے وقت پالیسی سازوں و منشور سازوں کو ہر اس پہلو کا خیال رکھنا چاہئیے جس کو لیکر عوام میں احساس ہو۔ اسکے علاوہ ان پہلووں کا بھی خیال رکھیں جن کی عوام میں اگر پزیرائی نہ ہواور وہ عوامی مفاد میں ہو یا جن سے مجموعی حالات کو بہتر ہونے میں مدد ملتا ہو تب بھی ان پر خصوصی توجہ دینا چاہئیے۔ منشور بناتے وقت دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ درج ذیل چند چیزوں کا بھی اگر خیال رکھی جائے تو امید ہے اچھا منشور بنے گا۔
1۔ نعروں، دعوں اور خواہشات کے اظہار کے بجائے سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی گئی اعداد و شمار کے ساتھ مستقبل کا نقشہ کینچھا جائے۔
2۔ اندرونی سطح پر ڈماگرفیک تقسیم کے ساتھ مجموعی معاشی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے اور اسکے مستقبل کو بہتر بنانے کےلئے لائحہ عمل تشکیل دی جائے۔ میری رائے میں بہتر یہ ہے کہ کسی علاقے میں موجود کاروبار، انڈسٹری، زراعت، معدنیات اور تعلیمی سطح کو لیکر پہلے ضلعی سطح کی حکمتِ عملی اور ان کو لیکر صوبائی اور پھر ملکی سطح کی حکمت عملی تشکیل دینا چایئیے۔
3۔ آبادی کی آبادکاری کو خصوصی طور پر زمین، انسانوں اور وسائل کے درمیان تقسیم کرکے ایک جامع ڈموگرافک ڈھانچہ تشکیل دینا ہوگا اور بڑے شہروں پر آبادی کا بوج کم کرنا پڑھیگا۔
4۔ نئے شہروں کی آبادکاری اور خودساختہ طور پر نئے بننے کے جانب رواں دواں شہروں کو ترتیب میں لانا اور اسے کسی بہتر پلان کے ڈھانچے میں ڈالنا انتہائی ضروری ہے۔
5۔ پانی، انرجی اور زراعت کو لیکر ایک جامع پلان کو تشکیل دینا ضروری ہے۔ اس میں کئی چیزیں اہم ہے۔ جیسے پانی کی تقسیم، زراعت اور انرجی کےلئے اسکو استعمال میں لانا۔ انرجی کے معاملے میں گنجائشیں ڈھونڈنا کیونکہ اسکی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے پاس چونکہ پینے کا صاف پانی کا مسئلہ کھڑا ہو رہا ہے اس لئے ایک جامع حل بھی ڈھوندنا ہوگا یا کم از کم حد تک اس مسئلے کو کم کرنے کا پلان منشور کا حصہ ہونا چاہئیے۔
6۔ زرعی ملک ہونے کے ناطے یہ ضروری ہے کہ ورلڈ فوڈ چین میں ہماری ایک واضح جگہ ہو۔ اس کے لئے بنا کوئی خاص پلان تشکیل دئیے اور اس پر عمل کئے بغیر یہ کام ناممکن ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ منشور میں مختصر الفاظ کے ساتھ ایک حکمت عملی پیش کی جائے۔ جیسے زراعت کو کیسے وسعت دی جائے؟ ایکسپورٹ میں نئے فوڈ آئٹمز کیسے شامل کئے جائے؟ یا موجودہ آئٹمز کو دنیا بھر میں کیسے پھیلایا جائے؟
7۔ سائنس، ٹیکنالوجی اینڈ انوویشن کے لئے بھی پلان میں جگہ ہونی چاہئیے۔ وجہ یہ ہے کہ دنیا کی اکانومی میں اسکا حصہ بہت بڑھ چکا ہے۔ اب اس کے بغیر آگے جانا ناممکنات میں سمجھا جاتا ہے۔
8۔ ضلعی اور تحصیلی سطح پر ایک طاقتور حکومتی ڈھانچہ منشور کا حصہ ہونا چاہئیے۔ جن کے پاس اپنے وسائل پیدا کرنے اور اسے استعمال کرنے کا حق ہو۔
9۔ انتظامی مسائل کو حل کرنے کےلئے ممکن حد تک قطعی فیصلے منشور کا حصہ ہونا چاہئیے۔
10۔ معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلیوں کے لئے ایک واضح لائحہ عمل ہونا چاہئیے۔
11۔ منشور میں نوجوان اور لکھے پڑھے افراد کو سیاست میں لانے کےلئے حوصلہ افزاء اقدامات ہونی چاہئیے۔
12۔ تعلیم اور انڈسٹریل پروڈکشن کے حصے، ریشو ٹو جی ڈی پی میں واضح طور پر اضافہ کیا جائے تو یہ بہتر رہے گا۔