Log Kya Kahenge?
لوگ کیا کہیں گے؟
کیا آپکو معلوم ہے؟ ہم میں سے بہت لوگ ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہیں۔ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ اس بیماری اور اسکے اثرات سے خود بھی ناواقف ہیں۔
نہیں سمجھے؟ تو چلیں میں سمجھا دیتی ہوں اُس بیماری کا نام ہے "لوگ کیا کہیں گے؟" جی تو کیا آپ واقف ہیں اس بیماری سے؟ نہیں؟ چلیں ہم بتاتے ہیں اس کے بارے میں۔
تو دراصل اس بیماری میں بیمار کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیا اپنا کام چھوڑ کے فقط اسی کی زندگی پہ غور کر رہی ہے، کہ کہیں وہ غلطی کرے اور ہم سرزنش کریں۔ بیچارہ بیمار شخص ساری زندگی اپنے فیصلے یہی سوچ کے کرتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اور یہ لوگ یہیں تک نہیں رکتے بلکہ اس بیماری کے اثرات اپنی اولاد کی زندگیوں پہ بھی مرتب کرتے ہیں۔
بچے کم گریڈز لے آئے تو لوگ کیا کہیں گے؟ بچے اپنی پسند کا کیریئر نہیں چن سکتے کیوں کہ لوگ کیا کہیں گے؟ پسند کی شادی؟ نہیں نہیں لوگ کیا کہیں گے؟
ایسے بہت سے حالات جہاں اپنی ذات اور اولاد کا سوچنا ہو۔ ایسے لوگ دوسروں کا سوچتے رہتے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ سب کی زندگی اتنی مشکل ہو چکی ہے کسی کے پاس وقت نہیں کسی کو جج کرنے کا۔ اور اپنی خوشیاں اپنے ہاتھ میں رکھیں، کسی اور کے خیال سے اپنی زندگی مشکل نہ بنائیں۔ بہت سے لوگ فقط یہ سوچ کے اپنی خواہشوں کو دبا لیتے کے لوگ کیا کہیں گے؟
جیسے اقبال نے کہا تھا
اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغ زندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا، نہیں بن، اپنا تو بن
ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں اپنی no ذات کے بارے میں سوچنے سے زیادہ لوگوں کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے۔ اکثر لوگ اپنی اوقات سے بڑھ کے خرچے کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی باتوں سے بچے رہیں۔ لیکن لوگ کیا سوچیں گے یہ بھی ہم سوچینگے تو لوگ کیا سوچیں گے؟ جو لوگ انقلاب برپا کرتے ہیں اور اپنی فکر کے داعی ہوتے ہیں وہ کبھی اس چیز کی فکر نہیں کرتے کہ لوگ کیا کہیں گے؟
ہمارے نبی پاکؐ کو لوگوں نے کون سے القابات سے نہیں نوازا تھا۔ لوگوں نے آپکو ساحر کہا، مجنوں کہا معاذ اللہ، دھمکانے کی کوشش کی لیکن ہمارے نبی پاکؐ نے لوگ کیا کہیں گے؟ کی سوچ کو پس پشت ڈال کے اپنا مشن جاری رکھا۔
اگر میں نتیجہ اخذ کروں تو ہر جگہ ہم نے یہ جملہ سنا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ پچپن سے سن رہے اور نہ جانے کب تک سنا ہوگا۔
میرا سوال آپ سے ہے کہ آخر کب تک ہم یونہی اپنے فیصلے دوسروں کا سوچ کے لیتے رہینگے؟ کب بدلینگے ہم اپنی یہ سوچ؟
ہمیں اپنی ذات سے متعلق فیصلے لینے کا حق کب دیا جائے گا؟ کیوں ہم نے اپنی زندگیوں کو مشکل بنا لیا ہے فقط یہ سوچ کے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ کیا ہماری اگلی نسل بھی اسی سوچ کے بھینٹ چڑھیگی؟
اس سوچ کو صرف آپ یا میں نہیں بدل سکتے بلکہ ہم سب کو بدلنا ہوگا اور بلکہ ہمیں دوسروں کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے بھی سوچ لینا چاہئے، تاکہ ہماری وجہ سے کسی کی زندگی جہنم نہیں بنے۔ اپنے حصے کی آسانیاں آپ بانٹیں، اللہ پاک آپکی زندگی میں آسانیاں پیدا کرینگے۔
ہاں میں آپکی رائے کی منتظر ہوں۔
کیسے اس بیماری اور سوچ پہ قابو پایا جا سکتا ہے؟ آپکی نظر میں، خیال میں اس کا کیا حل ہے؟