Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ruqia Akbar Chauhdry
  4. Kya Waldain Chore Dete Hain Bachon Ko?

Kya Waldain Chore Dete Hain Bachon Ko?

کیا والدین چھوڑ دیتے ہیں بچوں کو؟

اس سوال پہ اردگرد کے دو چار واقعات نظروں کے سامنے گھوم گئے۔ سچ کبھی کبھار والدین بھی نہیں پوچھتے اگر اولاد کمانا چھوڑ دے تو۔ ایسا ہی ایک واقعہ آنکھوں دیکھا اچانک یاد آ گیا۔ وہ غالباً سترہ اٹھارہ برس کا تھا جب والد کا سایہ سر سے اٹھا۔ والد بھی وہ جس نے بدقسمتی سے اولاد کیلئے کچھ بھی نہ چھوڑا تھا۔ نہ رہنے کو چھت نہ تن ڈھانپنے اور پیٹ کا ایندھن بھرنے کو کوئی مال اسباب۔

قریبی رشتہ داروں نے فوراً آگے بڑھ کر تھام لیا لیکن جوان خون تھا خود کچھ کرنے کی لگن میں گھر سے نکل آیا۔ باپ جہاں ڈیلی ویجر کے طور پر کام کرتا تھا اس نے وہی جاب سنبھال لی مجھے اچھے سے یاد ہے گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں جب کام کرتا تھا تو جسم جھلس جاتا تھا مگر کام کرتا رہا۔

کچھ عرصے بعد لاہور آ گیا کہ پڑھائی اور کام ساتھ ساتھ کروں گا۔ لڑکا تیز تھا یہاں اس وقت کی ایک سیاسی پارٹی کی سٹوڈنٹ ونگ جوائن کر لی اور جلد ہی اپنا ایک مقام بھی بنا لیا۔ پڑھائی کیساتھ ہی انکم بھی آنے لگی جو میرے حساب سے کچھ زیادہ تھی۔ ماں بہنیں بھائی سب ہی خوش ہونے لگے ہاتھوں کا چھالا بنا لیا گھر کا کوئی بھی فیصلہ اس کی مرضی کے بنا ممکن نہیں تھا۔

مجھے آنے والی انکم پہ تشویش تھی اب چونکہ تعلق بھی اچھا تھا اس لئے گاہے گاہے اپنی فکرمندی کا اظہار بھی کرتی رہی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بہرحال جلد ہی لڑکا ڈگری لیکر متحدہ عرب امارات کی طرف نکل گیا۔

اب اللہ جانے اس کی محنت تھی یا کوئی اور وجہ، دھن بارش کی طرح برسنے لگا۔ بھائیوں کو، فیملی کے کئی اور جوانوں کو بھی بلا لیا سب ہی کے کچھ کچھ اچھے دن آ گئے مگر اس بچے کے گھر میں تو جیسے ہُن برسنے لگا۔ بہنیں خوشحال ماں کے ٹور بدل گئے۔ پہناوے سے لیکر رہن سہن سب ہی ایکدم بدل گیا۔ لوگ ایک گاڑی بمشکل خریدتے اس نے دو بڑی گاڑیاں خرید لیں۔ گھر فرنیچر سے بھرنے لگا زندگی کی ہر سہولت اور آسائش حاصل ہونے لگی۔

مجھے ایکدم یہ خوشحالی فکر مندی میں مبتلا کرتی تو اظہار بھی کر دیتی مگر سب ہی سنی ان سنی کر دیتے۔

بہرحال بچہ جو کہ اب جوان تھا گھر بھر کا جیسے بالکل ہی سردار بن چکا تھا۔ سب پوجنے کی حد تک اس کے تابع تھے ظاہر ہے جس کی وجہ سے سب کے ٹھاٹ باٹھ چل رہے تھے اس کی سرداری تو تسلیم کرنی ہی تھی۔ کئی بار محسوس کیا اس کی ہر ناجائز بات کو بھی بلاچوں چراں مان لیتے ہیں سب۔ ہر حکم کو ہر خواہش کو شرفَ قبولیت مل جاتا جیسے خدائی فرمان ہو۔ وہ منہ سے بات نکالتا اور سب گھر والء آمنا و صدقنا کہتے پیچھے پیچھے چل پڑتے۔

کچھ عرصہ یعنی کئی سال بہت ہی زیادہ خوشحالی بلکہ امارت میں گزرا۔ پیسوں میں کھیلتے رہے سب، پھر اچانک پتہ چلا لڑکا نشے کا عادی ہو چکا ہے۔ اب سب کی نظریں تھوڑی تھوڑی بدلنے لگیں علاج کرایا مگر کچھ عرصے بعد پھر وہی حال پھر ہاسپٹل ایڈمٹ کیا باہر نکلا تو پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔

کام چھوٹا دھن برسنا بند ہوگیا مگر اس وقت تک دوسرے بھائی اپنے روزگار میں قدم جما چکے تھے۔ اب وہی بھائی جو کبھی سردار تھا جس کے بل پہ باقی بھائیوں کے رزق کے دروازے کھلے انہیں قدم جمائے کیلئے زمین میسر کی، اب وہی بھائی جب اس پہ مصیبت پڑی، کمانے سے گیا تو نہ صرف انہی بہن بھائیوں کو درد سر لگنے لگا بلکہ ماں جیسی ہستی کے بھی تیور بدل گئے۔ رفتہ رفتہ سر سے بالکل ہی ہاتھ اٹھا لیا۔

ایسے میں مجھے ملا تو اسے دیکھ کر میری آنکھیں بے ساختہ چھلک پڑیں۔ کہاں وہ حسین گبھرو گرانڈیل جوان کہاں یہ ہڈیوں کا ڈھانچہ۔ یقین مانیں میں کتنی ہی دیر بیٹھی روتی رہی۔

کہنے لگا دیکھ لیں آپی جب تک کماتا تھا سب کی آنکھوں کا تارہ تھا کسی نے کبھی اعتراض نہ کیا نا پوچھا کہ اتنا پیسہ آ کہاں سے رہا ہے۔ میں نے سب کو عیش کرائی، باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ یہ منہ سے نکالتے نہیں تھے اور میں خواہش پہلے ہی پوری کر دیتا تھا اور اب جب میں خالی ہاتھ ہوگیا ہوں ان سب پہ بوجھ بن گیا ہوں سب جان چھڑانا چاہتے ہیں اور تو اور میری سگی ماں کا رویہ ناقابلِ برداشت و یقین ہے۔

جو باتیں اپنے کھانے پینے کے حوالے سے اپنی ماں کی بتائیں میرا دل تڑپ اٹھا۔ میں اس کی ماں بہنوں سے لڑی اس کے حق کیلئے، بار بار لڑی۔ سب نے اسے بالکل تنہا چھوڑ دیا۔ میں بار بار کہتی رہی اسے تنہا مت چھوڑو یوں مگر سب کا کہنا تھا اب وہ معاشرے میں ہماری نیک نامی خراب کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ وہ جو پیسہ دیتا تھا کسی نے تب نہیں کہا۔۔

جانے کہاں سے لاتا ہے ہماری نیک نامی پہ دھبہ لگ جائے گا، لیکن اب جب وہ ناکارہ پرزے کی طرح پڑ گیا سب نے اسے اجنبی کر دیا۔ بہنوں کو سسرال کی فکر لگ گئی، بھائیوں کو اپنی عزت کی اور ماں کو کماؤ بیٹوں کی ناراضی کی۔

اسے ایک دم سے سب نے اتنا پرایا کر دیا کہ بہن بھائی کی شادی پہ بھی اسے نہ بلایا کہیں معاشرے میں ناک نہ کٹ جائے۔

میں جب یہ سب دیکھتی تو دل سے دعا کرتی تھی کہ خدا اسے دوبارہ اپنے قدموں پہ کھڑا کرے اور اتنی کامیابی دے پھر سے کہ یہی لوگ جنہوں نے اسے پیسے کی خاطر پیار کیا اور پیسے کی خاطر چھوڑ دیا یہ سب اسے حسرت سے دیکھیں۔ دوبارہ پھلتا پھولتا دیکھیں۔

قدرت کا کرشمہ دیکھئے کچھ عرصے بعد طبیعت سنبھلنے لگی ایک مذہبی جماعت کیساتھ شامل ہوا۔ نشے کی لعنت چھوٹی اور پھر سے کام شروع کر دیا۔ اب اللہ جانے لڑکا حد سے زیادہ محنتی ہے یا خوش قسمت یا کچھ اور مگر جس چیز کو ہاتھ لگاتا ہے سونے کی بن جاتی ہے ایک بار پھر دھن برس رہا ہے اب پھر وہی ماں وہی بہن بھائی ہیں پھر سے اس کا دم بھرتے ہیں۔

تو جناب، یہی سچ ہے۔۔

ہوتا ہے۔۔ بالکل ہوتا ہے۔۔ کئی وجوہات ہوتی ہیں جب والدین آنکھیں پھیر لیتے ہیں انہی میں سے ایک یہ بھی کہ جب کمانے والی اولاد ایکدم خالی ہاتھ آنے لگے تو والدین کو کھٹکنے لگتی ہے۔

مرحومہ بھی شاید اب کسی وجہ سے والدین کیلئے ویسی ہی ناپسندیدہ اور ناقابل قبول ہستی بن گئی ہو جیسے وہ نوجوان بن گیا تھا؟

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari