Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Ye Zindagi Dar Ul Imtehan Hai

Ye Zindagi Dar Ul Imtehan Hai

یہ زندگی دارالامتحان ہے

اس امتحان میں کامیاب وہ ہے جس کی آخرت اچھی ہے۔

رانی باجی بہت خوبصورت اور ہنس مکھ تھیں۔ ہر ایک سے بہت جلد گھلنے ملنے والی فطرت کی مالک۔

ہماری بڑی بہن سے ان کی بہت دوستی تھی اکثر شام میں وہ ہماری طرف آجاتیں، کبھی کبھی جب امی کی اجازت ہوتی تو ہم بھی ان کی طرف چلے جاتے۔ جب ہم جاتے تو وہ ضرور پکوڑے اور ساتھ پودینہ، اناردانے اور دہی کی چٹنی بناتی۔

بچپن کے دن جلدی جلدی گزر گئے۔ میری بہن اور میں شادی کے بعد گاؤں سے شہر آ گئی اور رانی باجی کی شادی ان کے زبردست عشق کے نتیجے میں خالہ کے اکلوتے بیٹے سے ہوگئی۔

بچپن میں تو اتنا اندازہ نہیں ہوتا لیکن جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئیں ان کی شخصیت کے کئی پرت کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئے۔ مثلاً وہ جس چیز کو پسند کر لیتیں پھر اسے حاصل کر کے چھوڑتیں چاہے کسی بھی حد تک جانا ہڑے۔

یہ شادی بھی ان کے طوفانی عشق کے نتیجے میں ہوئی جس کیلئے زبیر بھائی نے اپنی پھوپھو کی بیٹی سعدیہ سے منگنی توڑ دی۔ سعدیہ شروع سے کم گو، سہمی ہوئی دبو سی لڑکی تھی، اوپر سے یتیم بچی، ماموں اور ان کے گھرانے کے رحم و کرم پر پلنے والی۔ اس لئے بڑی آسانی سے رانی نے اس کا پتہ صاف کیا خود زبیر کی زندگی میں آ گئی۔

ہمارے والدین ہمارے بھائیوں کے ساتھ شہر میں منتقل ہو گئے، تو رانی کے ساتھ ہمارا رابطہ بھی کم ہو گیا۔ لیکن یہ سننے میں آتا رہتا کہ رانی باجی کے ہاں اولاد کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ پریشان رہتی ہیں کیونکہ ان کے شوہر اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے اور اولاد نہ ہونے کی وجہ سے رانی کی ساس اور سسر اس کے ساتھ اکھڑے اکھڑے رہتے تھے۔ اور چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا دوسری شادی کر لے۔ لیکن رانی اپنے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔

آخر کار ان کی شادی کے پندہ سال بعد ان کے سارے خاندان کے دباؤ پر رانی باجی نے اپنے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دیدی۔ ادھر سعدیہ کی بھی شادی کا کوئی حساب نہیں بن سکا تھا۔ تو رانی کے دل میں ایک منصوبہ ایا اور اس نے دوسری شادی کیلئے سعدیہ کا نام تجویز کیا۔

زبیر دوسری شادی کرنا ہی نہی چاہتا تھا اور سعدیہ کے ساتھ تو بالکل بھی نہیں۔

زبیر کی والدہ بھی نند کی بیٹی کا رشتہ نہیں لینا چاہتی تھیں جس میں اور وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کی عمر 32 سال سے اوپر جارہی ہے اور اس عمر میں اولاد ہونے کے چانس کم ہوتے ہیں۔ لیکن رانی کے دل میں جو منصوبہ تھا وہ سعدیہ کے ساتھ شادی ہونے پر ہی کامیاب ہو سکتا تھا، ویسے بھی وہ جس بات پر اڑ جاتی تھی اس کو منوا کر ہی دم لیتی تھی۔

اور یوں زبیر کی زندگی میں وہی لڑکی پھر سے شامل ہو گئی جس کو بڑی بےدردی سے وہ رد کر چکا تھا۔ زبیر کو شروع سے ہی سعدیہ میں کوئی دلچسپی نہیں تھی مارے باندھے اس نے شادی تو کرلی لیکن اس کا رویہ سعدیہ کے ساتھ نہایت خشک اور سرد مہری والا رھا۔

اللہ سوہنے کی اپنی شان ہے کہ جو شادی زبیر کی اپنی پسند سے ہوئی تھی وہاں ان کی محبت کی کوئی نشانی نہ آئی اور جو شادی صرف گھر والوں کے مجبور کرنے پر کی وہاں 4 سال کے عرصے میں اللہ نے سعدیہ کو دو خوبصورت بیٹوں سے نواز دیا۔

جو گھر برسوں سے بچوں کی آوازوں کیلئے ترس رہا تھا وہ بچوں کی کلکاریوں سے گونج اٹھا تھا۔ سعدیہ شروع سے کمزور اور کم شکل لڑکی تھی اوپر تلے کے بچوں نے اسے بالکل ہی نچوڑ ڈالا۔

دونوں بچے رانی نے سنبھال لئے جبکہ سعدیہ سارا دن گھر سنبھالتی۔ زبیر کا رویہ سعدیہ کے ساتھ دو بیٹوں کی پیدائش کے بعد بھی نہیں بدلا بلکہ بد سے بد تر ہوتا چلا گیا۔ بات بات پر سعدیہ کو برے طریقے سے بے عزت کر دینا ہرروز کا معمول بن چکا تھا۔

اتنے عرصے میں زبیر کے والد صاحب بھی وفات پا گئے اور سعدیہ کو جو تھوڑا بہت آسرا ماموں والا تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔ رانی، سعدیہ کے دونوں بیٹوں کو لیکر یوں یوں اترائی اترائی پھرتی گویا دونوں کو اس نے ہی جنم دیا ہو۔

بچے بھی سگی ماں سے زیادہ رانی سے پیار کرتے۔ ساس، سوکن، شوہر، بچے۔ کوئی بھی تو سعدیہ کا غمگسار نہیں تھا۔ گھر کا سارا کام سعدیہ کے ذمہ تھا جس میں کھانا پکانا، صفائیاں، کپڑے دھونے اور استری کرنا شامل تھا۔

رانی نے دونوں بچوں کو ایسے اپنایا کہ دیکھنے والے اسے ہی سگی ماں سمجھتے۔ بہرحال جو بھی تھا ایک بات سب مانتے تھے کہ رانی بچوں کو بہت لاڈ پیار سے پال رہی تھی۔

وہ گرمیوں کا موسم تھا زبیر دکان سے کھانا کھانے کیلئے گھر آیا تو کھانے میں ابھی کچھ دیر تھی جبکہ زبیر نے جلدی کھانا کھانے کے بعد پھر جا کر دکان کھولنی تھی کیونکہ اس دن اس کے نوکر کی والدہ کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے دکان پر کوئی نہیں تھا۔

جب اس نے کھانے کیلئے آواز لگائی تو سعدیہ تیز بخار کی وجہ سے کھانا نہیں بنا سکی تھی۔ اب بجائے اس بات کے، کہ وہ اس کی طبیعت پوچھتا یا رانی سے کھانے کا کہتا اس نے سعدیہ پر چلانا شروع کر دیا۔

جب وہ غصے سے جھاگ اڑاتا ہوا اسے ماں بہن کی گالیاں اور مغلظات بک رہا تھا اس وقت اتفاقاً سعدیہ کی امی گھر میں داخل ہوئیں۔ سعدیہ کی والدہ کو اپنی بیٹی جان سے زیادہ عزیز تھی۔ اس نے اپنی پوری جوانی بیٹی پر قربان کردی تھی۔ شوہر کی وفات کے بعد دوبارہ شادی نہیں کی تھی۔

اس دن جب اس نے اپنی پیاری بیٹی کی دگرگوں حالت دیکھی تو اس نے زبیر سے کہا کہ اسے بہت تیز بخار ہے تمہیں نظر نہیں آرہا، کوئی انسانیت نہیں تم لوگوں میں۔ لیکن رانی کی آنکھوں سے دیکھنے والے زبیر نے کہا کہ اس منحوس عورت کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں، اتنی ہمدردی ہے تو اسے اپنے ساتھ ہی لے جاؤ۔

سعدیہ کے منع کرنے کے باوجود اس کی ماں اسے اپنے ساتھ لے گئی۔ رانی اور زبیر نے شکر ادا کیا۔

سعدیہ کی والدہ نے لوگوں کو بیچ میں ڈال کر زبیر کو اپنا رویہ بہتر کرنے کیلئے سمجھانے کی کوشش کی لیکن رانی تو جیسے اسی موقعہ کے انتظار میں تھی۔

تین سالہ بیٹا جب اپنی توتلی زبان میں باپ سے کہتا "رانی ماما اچھی، سعدی ماما گندی، تو باپ کی نفرت میں مزید اضافہ ہو جاتا۔ رانی شوہر سے کہتی کہ کیوں کہ میں بچوں سے پیار کرتی ہوں تو اس وجہ سے سعدیہ اپنے سگے بچوں سے برا سلوک کرتی ہے۔ جلد ہی زبیر نے سعدیہ کو طلاق دیدی۔

رانی کا منصوبہ ہی یہی تھا کہ سعدیہ کا جو بھی بچہ ہوگا وہ اس سے لیکر اسے گھرسے نکال دینا ہے۔ اب رانی کی زندگی مکمل تھی پیار کرنے والا شوہر دو خوبصورت صحت مند بیٹے دن بدن پھلتا پھولتا کاروبار۔

سعدیہ بیچاری تو تھوڑے عرصے کے بعد بچوں کے غم کو سینے سے لگائے فوت ہو گئی اس کی بوڑھی والدہ اس کی قبر پر بیٹھی رہتیں کچھ عرصے کے بعد وہ پاگل ہو گئیں۔ گلی محلے کے لوگ اس پر ترس کھا کر کبھ کچھ کھانے کو دیدیتے۔ کبھی کوئی اسے نہلا دیتا۔ لیکن زبیر کو اپنی پھپھو پر کبھی ترس نہ ایا۔

بڑا بیٹا 16 سال کا تھا جب ایک دن ایکسیڈنٹ میں زبیر کی دونوں ٹانگیں کچلی گئیں۔ ڈاکٹروں کی غفلت سے دائیں ٹانگ میں گنگرین پھیل گیا۔ دائیں ٹانگ ران کے اوپر سے کاٹنی پڑی۔

زبیر کے بیمار ہونے کی وجہ سے کاروبار پر بہت برا اثر پڑا۔ آخر کار مجبور ہو کر بڑے بیٹے کو پڑھائی سے ہٹا کر دکان پر بیٹھنے کا کہا گیا۔ لیکن رانی اور زبیر کے بےجا لاڈ پیار نے دونوں بچوں کو بہت بگاڑ کر رکھ دیا تھا خاص طور پر بڑے کو۔ بڑا بیٹا بری صحبت، منشیات اور جوئے کا رسیا تھا۔

ایک رات جوئے میں دکان ہارنے کے بعد دوسری طرف کے لڑکوں کے دست و گریباں ہوا تو انہوں نے اسے خنجر پیٹ میں اتار کر جان سے مار دیا۔ لوگوں نے بیچ میں پڑ کر دکان واپس لیکر دی اور چھوٹے بیٹے کو دکان سنبھالنے کا کہا لیکن اب چھوٹا بیٹا بڑے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر برائی میں ملوث ہو چکا ہے۔

بڑے والا جو کچھ کرتا تھا گھر سے باہر کرتا تھا لیکن یہ چھوٹے والا گھر کے اندر دوستوں کو بلا لیتا ہے۔ رانی 60 سال کی عمر میں اتنی بوڑھی لگتی ہیں جیسے بالکل ضعیف ہوں۔

بیٹا کبھی چائے، کبھی کھانا بنا کر دینے کا کہتا ہے اور اگر رانی دیر سویر کرئے تو اسے دھکے مارتا ہے، اپنے باپ کی طرح گندی گالیاں دیتا ہے۔ یہ دونوں بھائی بچپن میں بہت معصوم صورت اور خوبصورت تھے۔

بڑے کی فوتگی پر میں گئی تھی تو چھوٹے کے چہرے پر خباثت اور بدمعاشی دور سے نظر آرہی تھی۔ زبیر اور رانی کی زندگی کا ابتدائی حصہ بڑا قابل رشک تھا لیکن انہوں نے اسے ظلم کرنے میں بسر کردیا۔ اب وہ دونوں عبرت کا نشان بن چکے ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ انہیں معاف کر دیں اور ان کے بچے کو ہدایت دے۔ دیں تا کہ انکی زندگی کا آخری حصہ پرسکون ہو جائے۔

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz