1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Shehr Madina Kaisa Hai?

Shehr Madina Kaisa Hai?

شہر مدینہ کیسا ہے؟

یہ تو بالکل وہی آواز تھی۔ ویسا ماحول، ویسی ہوا، ویسا سکون، ویسا سکوت اور ہوا کے دوش پر ویسی آواز۔ جیسے مسجد نبویؐ میں تراویح کی تلاوت ہو رہی ہو۔

آج صبح فجر کے وقت دور کہیں کسی مسجد میں کوئی بہت ہی خوش الحانی سے تلاوت کر رہا تھا۔ میں اْسی منظر، اْسی ماحول میں پہنچ گئی جب 27 رمضان المبارک کی رات مسجد نبویؐ کے صحن میں پر سکون ماحول، نورانی فضا، پیاری ہوا اور باجماعت تراویح کے دوران تلاوت ہو رہی تھی۔

آنسو تھے کہ رخساروں سے پھسل پھسل کر گردن تک جا رہے تھے۔ وہ یادیں تو اب سرمایہ حیات ہیں۔ جب بریدہ سے مدینہ پاک نماز جمعہ ادا کرنے کیلئے نکلتے تھے۔

کبھی جمعرات کی شام کو نکلتے اور راستے میں مختلف مقام پر موجود محطہ (قیام و طعام) میں رک کر آرام کرتے ہوئے مدینہ پہنچتے تھے اور کبھی جمعہ کی صبح نماز فجر کے فوراََ بعد گھر سے نکلتے اور جمعہ کی نماز تک مسجد نبویؐ میں پہنچ جاتے۔

جب مدینہ پاک کی حد شروع ہوتی تو میرا بیٹا گاڑی کا شیشہ کھول دیتا اور ہمیں کہتا اس پاک صاف اور شفا بخش ہوا میں سانس لیں۔

آپ ﷺ بھی جب کسی سفر سے لوٹتے تو مدینہ کے قریب آ کر مٹی سے بچاؤ والا کپڑا منہ سے ہٹا کر مدینہ پاک کی ہوا میں گہرے سانس لیتے۔

مسجد نبویؐ پہنچتے تو نماز جمعہ کیلئے مسجد باہر صحن تک بھری ہوئی ہوتی۔ چھتریاں کھلی ہوئی ہوتیں۔ پانی کے قطروں والی ہوا سے موسم گرمی کے باوجود خوشگوار ہوتا۔

یہ عشق بھی کیسا عشق ہے؟ یہ شوق بھی کیسا شوق ہے؟ کہ جوق در جوق لوگ نماز جمعہ کیلئے کھنچے چلے آتے ہیں۔

میرے ساتھ دائیں طرف والی لڑکی اپنی ساس، شوہر اور دو بچوں کے ساتھ دبئی سے ویک اینڈ اور نماز جمعہ کیلئے وہاں موجود تھی۔

اس کے علاوہ ترکی، شام، مصر، سوڈان، انڈیا، پاکستان اور دنیا بھر سے لوگ عمرہ کے بعد عشق مصطفیٰ ﷺ میں ڈوبے ہوئے دربار مصطفیٰ ﷺ پر حاضری کیلئے حاضر ہوتے ہیں۔

مدینہ پاک میں لوگوں کے چہروں پر ایک منفرد سکون نظر آتا ہے۔ وہاں کے لوگ محبتیں بانٹنے والے ہوتے ہیں۔

اللہ کے گھر جائیں تو سادہ لیکن با رعب اور جاہ و جلال کے ساتھ اللہ کا گھر سامنے موجود ہوتا ہے جیسے کہ رہا ہو۔ آؤ اللہ کے بندو آؤ، میرا طواف کرو، یہاں اللہ کی رحمتیں برس رہی ہیں۔ اللہ کو راضی کر لو۔

آپ ﷺ کے گھر پر جائیں تو وہاں دل پر رقت، آنکھوں میں آنسو اور ایک مسکینی کا احساس ہوتا ہے۔ جیسے وہاں کوئی بہت حساس اور محبت کرنے والی شخصیت موجود ہو۔ لیکن اس شخصیت کو اپنا آپ، صرف ہمارے دلوں کو محسوس کروانا ہو اور ہمیں مسجد نبویؐ کے اندر انہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے تا کہ ان کی خدمت میں سلام پیش کر سکیں۔

سلام پیش کرنے کیلئے ادب، آداب سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہاں اونچی آواز میں بولنے، ہنسنے، دوپٹہ اترنے کے معاملات میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہمیں علم ہی نہ ہو اور ہمارے اعمال ضائع ہو جائیں۔

اللہ تو ہر حال میں اللہ ہے، گناہگاروں کا، سیاہ کاروں کا، نیکو کاروں کا، شرم ساروں کا، معافی کے طلب گاروں کا۔

وہ سب کا اللہ ہے، وہ سب کا مالک ہے جیسے ماں کو سارے بچے عزیز ہوتے ہیں ویسے ہی اس ربّ کو اپنے سارے بندے عزیز ہیں۔

پہلا عمرہ گروپ کے ساتھ کیا تو بریدہ سے طائف والے راستے سے مکہ جاتے ہوئے۔ میقات پر احرام باندھ کر۔۔

لبیک اللھم لبیک

لبیک لا شریک لک لبیک

ان الحمد والنعمتہ لک والملک

لا شریک لک

با آواز بلند پڑھتے ہوئے بس پر بیٹھ کر روانہ ہوئے تو دل کا عجب عالم تھا۔

اللہ کی ہیبت۔

اللہ کا خوف۔

اللہ کی رحمت کی آس۔

اپنے گناہوں پر شرمساری۔

مکہ کے قریب پہنچے تو رات کا کوئی پہر تھا جب بیٹی نے بازو ہلا کر جگایا اور کہا، اٹھیں امی! وہ دیکھیں۔ کلاک ٹاور نظر آ رہا ہے۔

دیکھا تو کلاک ٹاور ایسے نظر آ رہا تھا جیسے میرے ہاتھ کی دسترس میں ہو اور میں ہاتھ بڑھا کر چھو لوں گی۔

اور پانچ منٹ کے بعد وہ دور ہوتا، ہوتا آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔

کافی مرتبہ ایسا ہوتا کہ وہ بالکل قریب آ کر پھر دور ہو جاتا رہا۔ اور جب خانہ کعبہ پہچ گئی تو تمام احساسات، جذبات، شرمساری، خوشی، سرشاری سب کچھ جیسے سلب ہو گیا۔

میں نہیں جانتی تھی یہ کیا ہے؟ میں رونا چاہتی تھی لیکن دل جیسے پتھر کا بن گیا، آنکھیں خشک، آنسو دور، دور تک نہیں۔

اللہ کا معاملہ ہر بندے سے الگ ہی ہے، کچھ لوگ بے تحاشا روتے ہیں۔ کچھ میری طرح بے حس ہو جاتے ہیں۔ میرا دماغ جیسے بند تھا۔

دونوں بچوں نے دائیں بائیں سے ہاتھ پکڑا ہوا تھا قدم، قدم سیڑھیاں اترتی میں اللہ کے حضور پیش ہونے جا رہی تھی۔ سپاٹ دل، خشک آنسو، بند دماغ۔

بچے مجھے بتا رہے تھے کعبہ پر پہلی نظر پڑے تو دعا قبول ہوتی ہے۔ میں نے دعائیں سوچی ہوئی تھیں، یاد کی ہوئی تھیں۔

لیکن۔

عشق بھی کبھی سبق کی طرح یاد کر کے کیا جاتا ہے؟ عشق تو بے ساختہ ہے۔

یہ کیا نہیں جاتا، یہ، بس خود ہی ہو جاتا ہے۔ اور جب بچوں نے مجھے بتایا۔

امی آنکھیں کھول لیں، آپ خانہ کعبہ کے بالکل سامنے ہیں۔

اور آنکھیں کھولیں تو۔

سامنے خانہ کعبہ، سیاہ غلاف میں لپٹا ہوا، نہ کوئی روشنیاں نہ کوئی جگمگاہٹ، نہ کوئی دنیا داری کے لوازمات۔

بردبار، پروقار، بارعب، جاہ و جلال کے ساتھ سامنے موجود تھا۔

سیاہ غلاف کی بنائی میں جگہ جگہ اللہ، اللہ لکھا ہوا۔

کہاں کے ہوش، کون سی دعائیں؟ سب کچھ پتھر بن چکا تھا۔

بچوں نے ہلایا۔

امی دعائیں۔

زبان نے دعا سے اور دماغ نے دعا یاد کروانے سے انکار کر دیا تھا۔

اس کے بعد زبان سے جو پہلا لفظ ادا ہوا وہ تھا۔ "سبحان اللہ"۔

پھر دوسری بات جو کہی۔

"اللہ میں تو اس قابل نہ تھی، اللہ آپ بہت مہربان ہیں۔ آپ بہت زیادہ مہربان ہیں۔

میں اپنی ہمت پر حیران تھی کہ کیسے اتنی نافرمانیوں، برائیوں، گناہوں کا بوجھ اٹھائے میں اللہ کے حضور میں چلی آئی۔

جب طواف شروع کیا تو اللہ نے مجھے خانہ کعبہ کے اتنے قریب کر دیا کہ میں نے دونوں ہاتھ خانہ کعبہ کی دیوار کے اوپر رکھ کر اپنا ماتھا دیوار کے ساتھ ٹکا دیا اور بے ساختہ بولی۔

رب اغفر و ارحم و انت خیر راحمین۔

اس کے ساتھ ہی آنسوؤں کے بند ٹوٹ گئے، اب میرا دل آنسوؤں کے ساتھ بہا جا رہا تھا۔

یاد آ گئیں جب اپنی خطائیں۔

اشکوں میں ڈھلنے لگی التجائیں۔

رویا غلاف کعبہ پکڑ کر

اللہ اکبر، اللہ اکبر

خانہ کعبہ کی مخصوص خوشبو جو تب محسوس کی تھی اسے آج بھی سوچوں تو اپنے پاس محسوس کرتی ہوں۔ خانہ کعبہ کیلئے دل ایسے اداس ہوتا ہے جیسے اپنے پیارے عزیزوں کو بہت دنوں تک نہ دیکھیں تو دل ملنے کیلئے، دیکھنے کیلئے اداس ہوتا ہے۔

عبادت تو اللہ کی ہی کرتے ہیں لیکن منہ ول کعبہ شریف کرتے ہوئے۔ پہلے عمرے کے سفر کے آخری طواف کے چوتھے چکر میں مجھے خیال آیا کہ حجر اسود کا بوسہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔

بچے ساتھ نہیں تھے، میں اکیلی ہی حجر اسود کا بوسہ لینے والی لائن میں شامل ہو گئی جب کافی قریب پہنچ چکی تو کسی نے بتایا کہ مجھے دوسری لائن میں آنا ہے جو کہ خواتین والی ہے۔

اتنا قریب پہنچ کر بے مراد واپس آنے پر بہت دکھی ہو کر باقی طواف پورا کیا۔ آخری چکر میں دو نفل پڑھے اور اللہ سے دعا کی "اے میرے مہربان اللہ، آپ کے گھر، آپ کی مہمان بن کر آئی ہوں۔

کیا آپ اپنی مہمان کی دعا کو قبول نہیں فرمائیں گے؟ کیا مجھے اجازت نہیں دیں گے کہ آپ کے حبیب ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے حجر اسود کا بوسہ لے سکوں؟

یا اللہ میری مدد فرمائیں تا کہ میں حجر اسود کا بوسہ لے سکوں۔ اس کے بعد ہر ہجوم میں سے خواتین والی لائن کو ڈھونڈ کر اس میں شامل ہو گئی۔

اس مرتبہ تو ایسے آگے تک پہنچی کہ بغیر کسی رکاوٹ کے حجر اسود کے قریب پہنچ گئی لیکن جب قریب پہنچی تو دیکھا کہ وہاں اتنا ہی زیادہ رش۔ ابھی میں سوچ رہی تھی کہ کیا کرنا چاہیے جب پیچھے سے کسی نے دھکا دیا اور میں سیدھی حجر اسود کے اوپر جا گری۔

چند لمحوں کیلئے کچھ سمجھ میں ہی نہیں آیا اوپر اس سپاہی کو دیکھا جو گردن میں چمڑے کی بیلٹ کی مدد سے خانہ کعبہ کے ساتھ تقریباً لٹکا ہوا ڈیوٹی دے رہا تھا۔ جونہی میری نظریں اس سے چار ہوئیں اس نے اشارہ کیا کہ بوسہ لو۔

اس نے تو مجھے غور سے دیکھا بھی نہیں ہو گا لیکن میرے ذہن میں اس کا پر نور چہرہ آج تک محفوظ ہے۔

میں بوسہ لینے کیلئے جھکی تو کئی بوسے لے ڈالے۔ وہ لمحہ میری روحانی زندگی کو بدلنے والا لمحہ تھا۔ سر کی چوٹی سے پاؤں کے تلوے تک ایک کیفیت سرائت کرتی ہوئی گزر گئی تھی۔

ہجر اسود میں کچھ بہت خاص ہے، تبھی تو آپ ﷺ نے اس کا بوسہ لیا تھا۔

آپ میں سے جو لوگ عمرہ یا حج کر چکے ہیں انہوں نے نوٹ کیا ہو گا کہ عمرہ یا حج کے دوران بار، بار اپنے جاننے والے لوگ نظر آتے ہیں۔ مجھے بھی وہاں با رہا اپنے حلقہ احباب میں سے کئی لوگ یا ان سے ملتے جلتے چہرے نظر آتے رہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی تک میں نے جتنے لوگوں کو وہاں دیکھا ہے اب تک وہ تمام لوگ عمرہ یا حج کر چکے ہیں اور میں وہاں جس جس کو دیکھتی تھی ان سب کیلئے دل سے دعائیں کرتی تھی۔

مجھے لگتا تھا کہ اللہ اگر کسی کو دکھا رہا ہے تو مجھے اللہ سے اس کیلئے دعا کرنی چاہیے۔ میں نے دعاؤں کی جتنی قبولیت مدینہ پاک میں دیکھی وہ کمال کی ہے۔

مسجد نبویؐ میں جمعہ پڑھ چکے تو میں ابھی عصر تک وہیں رکنا چاہتی تھی۔ ادھر بیٹا آیا اور اس نے بتایا کہ ہم تھوڑی دیر میں مکہ کیلئے نکل رہے ہیں۔

بے اختیار میں نے اسے کہا کہ عصر تک رک نہ جاتے؟

لیکن اس دن ہمارے ساتھ بچوں کے کولیگز بھی تھے۔

جانا تو سب نے اپنی اپنی گاڑیوں پر تھا لیکن نکلنا اکھٹا ہی تھا۔ اس لئے ہمارا رکنا محال تھا۔ ہم سب لوگ اکھٹے نکلے لیکن ہماری گاڑی خراب ہو گئی۔

باقی ساتھیوں کو بھی ہمارے ساتھ رکنا پڑا جب ورک شاپ سے کاریگر کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آج جمعہ ہے ہمارے کاریگر جمعہ پڑھنے کے بعد چلے جاتے ہیں اور اب عصر پڑھ کر ہی آئیں گے۔

واہ میرے اللہ، میں نے عصر کا کہا تھا تو آپ نے بھی کہا اب تم سب لوگ عصر پڑھ کر ہی نکلو گے۔ بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں پہنچی۔

آج صبح تلاوت اس قدر پیاری تھی کہ اپنا آپ مدینہ پاک میں محسوس ہوا۔

مدینہ تمہارے کھجوروں کے باغات، تمہاری اذانیں، تمہارے بازار، تمہاری مسجد قبا، اور مدینہ کی شان ہمارے نبی آخر الزماں ؐ کا گھر، مسجد نبوی ﷺ آپ سب مجھے بہت بہت یاد آتے ہیں۔ نصیب والے اب بھی وہاں جا رہے ہیں، آ رہے ہیں اور ہم اپنی دعاؤں کی قبولیت کا انتظار کرتے ہوئے وہاں سے آنے والوں سے سوال کرتے رہتے ہیں۔

آنے والو یہ تو بتاؤ

شہر مدینہ کیسا ہے

گنبد خضرا کے سائے میں

رہ کر جینا کیسا ہے؟

Check Also

Kya Pakistani Adalaten Apne Daira e Kar Se Tajawuz Karti Hain?

By Imran Amin