Sarbarah Ke Faislon Mein Allah Ki Barkat
سربراہ کے فیصلوں میں اللہ کی برکت
تمام جوڑوں (شادی شدہ) کی طرح ہم دونوں کا ہمیشہ، ہر بات میں نظریاتی اختلاف ہوتا تھا۔ جو کہ آج تک الحمداللہ بفضل خدا جاری و ساری ہے۔ گو کہ بحث مباحثہ کے بعد میں ان کی بات مان کر بچوں کو بھی ان ہی کی بات پر لے آتی ہوں۔ اور میں مانتی ہوں کہ اکثر کافی وقت گزرنے کے سرتاج کے فیصلوں کا نتیجہ درست ہوتا ہے۔
چھوٹے، موٹے اختلافات تو چلتے ہی رہتے تھے لیکن گرینڈ افتتاح بڑے بیٹے کے سکول داخلے کے وقت ہوا تھا۔
ان دنوں نئے نئے پرائیویٹ سکول مارکیٹ میں آئے تھے
خاص طور پر چھوٹے شہروں میں۔
ہوا یہ کہ بیٹے کو سکول داخل کروانے سے پہلے میں نے کچھ تگ و دو سے اپنے چھوٹے سے شہر کے اچھے سکولوں کی لسٹ بنائی اور ان میں سے ایک سکول منتخب کیا۔
وہ سکول ہمارے گھر سے کافی دور تھا۔ لیکن اور بھی بچے جاتے تھے اس لئے مجھے یقین تھا کہ سرتاج نے کوئی اعتراض نہیں کرنا۔
لیکن جونہی گھر میں داخلے کا معاملہ شروع ہوا تو سب سے پہلے ساس امی نے کہا
"ہمارا تو بہت لاڈلا بچہ ہے، ہم تو سکول داخل نہیں کروائیں گے۔ پڑھی لکھی بہو کا کچھ تو فائدہ ہو۔ بس اڑھائی جماعتیں ماں پڑھا دے، اڑھائی جماعتیں باپ پڑھا دے۔ پھر دیکھیں گے کہ اب آگے کیا کرنا ہے۔
ادھر سرتاج پہلے ہی دور کے کسی سکول میں بھیجنے کے حق میں نہیں تھے مزید انہیں والدہ سے بھی کمک مل گئی تو وہ اپنی بات پر بالکل پکے ہو گئے۔
ہمیشہ یہی ہوتا آیا، اور آج تک ہوتا آ رہا ہے کہ آخر کار بات ان کی ہی مانی جاتی ہے تو بیٹے کو قریبی سکول میں داخل کروا دیا گیا۔
اب سچ بات کروں تو یہی کہوں گی کہ اس چھوٹے سے محلے والے سکول میں داخلہ کروانا بہت اچھا رہا۔
بچے کی استانیاں بھی گھر کے قریب ہی رہتی تھیں، ان سے پہلے بھی دعا سلام تھی اب بیٹے کی وجہ سے مزید بڑھ گئی۔
اب ہوتا یہ کہ ہر روز سکول سے آنے کے بعد اسے گھنٹہ ڈیڑھ میں خود دیا کرتی۔
بہت جلد اس نے اپنی استانیوں کی نظر میں بہت اچھا مقام بنا لیا۔
ایک بات کا میں دھیان رکھتی تھی کہ بیٹے کو کبھی سکول والی استانی کے پاس ٹیوشن کیلئے نہیں بھیجا۔
مجھے یہ وہم ہوتا تھا کہ اگر انہوں نے اگلے دن پرچے کی تیاری سوالیہ پرچے کے مطابق کروا دی تو بچہ وقتی طور پر کوئی پوزیشن تو لے، لے گا لیکن حقیقت میں وہ اس کیلئے نقصان دہ ثابت ہو گی۔
چھٹی جماعت میں پہنچا تو اب اس کے ابا نے اپنے وعدے کے مطابق بیٹے کو اپنے شہر کے اس وقت کے بہترین سکول میں داخل کروا دیا۔
بنیاد اچھی تھی۔ کچھ میری بھی محنت تھی، میٹرک میں بیٹا بہت اچھے نمبروں سے کامیاب ہوا۔
ایف ایس سی میں نمبر تو مناسب ہی تھے لیکن باقی جماعت کے بچوں کو بھی مدد کے خیال سے پڑھانے کی وجہ اس کے concept بڑے واضح تھے۔
مجھے آج تک یاد ہے کہ جب اس کے نمبر میری توقع سے کم آئے تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے تب بیٹے نے مجھے کہا تھا۔
"امی، آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں؟ سمجھ کر، پڑھنے سے اتنے ہی نمبر آتے ہیں اور میں نے باقی بچوں کی مدد کیلئے بھی بہت محنت کی ہے۔ تو انشاءاللہ سب بہترین ہو جائے گا۔
اور اس کی یہ بات اس وقت سچ ثابت ہوئی جب اس نے ہر یونیورسٹی کے داخلہ ٹیسٹ میں ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کی۔
مجھے یاد ہے کہ جب یو ای ٹی لاہور میں انٹری ٹیسٹ ہوا تو یہ منفی مارکنگ کا بالکل شروع والا زمانہ تھا۔
جب نتیجہ کی لسٹ لگی تو ایک بچے کے نمبر منفی میں تھے۔ یعنی اگر کل 300 تھے تو اس کے نمبر 0 سے بھی پیچھے، منفی میں تھے۔
اور اس کے نام کے سامنے کسی شرارتی لڑکے نے لکھا ہوا تھا۔
"شہزادیا۔ تیرا داخلہ پکا اے"۔
خیر۔ بات اِدھر اُدھر کر دیتی ہوں۔ تو بیٹے کا نام ہر یونیورسٹی کی میرٹ لسٹ پر شروع والے طالب علموں میں تھا۔
بچے نے تقریباً سکالر شپ پر ہی ڈگری مکمل کی اور پھر مزید پڑھنے کیلئے پاکستان سے باہر چلا گیا۔
اتنی لمبی بات اس لئے بتائی کہ سکول کی اہمیت ہے لیکن زیادہ اہمیت ماں، باپ کی محنت کی ہے۔ دوسری بات یہ کہنا چاہتی ہوں شوہروں کی بات کو بھی اہمیت دیا کریں انہوں نے دنیا کو ہم گھریلو خواتین سے زیادہ دیکھا ہوا ہوتا ہے۔ اگر وہ کچھ کہ رہے ہیں تو مان لیں۔ یقین کریں گھر کے سربراہ کے فیصلے میں اللہ کی طرف سے برکت ہوتی ہے۔
اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔