Khawab, Sarab
خواب، سراب
میں میٹرک میں تھی جب میرے سے بڑی بہن کی منگنی ہو گئی۔ اس کے منگیتر کی آمد پہ وہ گھر میں چھپتی پھرتی لیکن جیجا جی کی نظریں انہیں ڈھونڈ ہی لیتیں۔
بہت مرتبہ میری منت سماجت بھی کرتے کہ بس 5 منٹ کیلئے بات کروا دو۔ میں نے بہت مرتبہ ان سے آئس کریم کھائی، گفٹس لیے۔ بلکہ یہ کہیں کہ انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ لیکن کمال بھائی بھی کمال کے انسان تھے۔ آپو کی بس ایک جھلک کیلئے ہر ہفتے گھنٹوں کا سفر کر کے آ جاتے۔
خیر آپو جیسی خوبصورت اور خوب سیرت لڑکی کیلئے کم از کم اتنا پیار کرنے والا ساتھی تو بنتا تھا۔ کمال بھائی اپنے گھر میں سب سے بڑے تھے۔ ان کے والد صاحب جب وہ میٹرک میں تھے تب وفات پا چکے تھے۔
باپ کی وفات کے بعد انہوں نے دن رات ایک کر کے اپنے والد صاحب کے کاروبار کو سنبھالا اور اب وہ اپنے چھوٹے سے شہر کے ایک جانے پہچانے انسان تھے۔ جن کی وجہ شہرت ان کی بہترین کاروباری ساکھ اور ایمانداری تھی۔
آپو کی شادی بہت دھوم دھام سے ہویی۔ میرے بابا نے اس کی شادی پہ کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
آپو شروع سے ہی بہت سگھڑ، کم گو، خوبصورت تھیں۔ میں خوبصورتی میں تو خیر آپو سے بھی دو ہاتھ آگے ہی تھی اور اس کی وجہ میری امی اور ننھیال کا حسن تھا لیکن گھرداری میں بالکل صفر۔
مجھے بننا سنورنا، گھومنا پھرنا، ہنسنا بولنا پسند تھا۔
میرے چنچل مزاج سے امی اکثر پریشان ہو جاتیں لیکن بابا ہمیشہ میرا ساتھ دیتے کہ خود ہی وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گی۔ آپو کی شادی کے بعد تو جیسے مجھے شوخی و شرارت کا اجازت نامہ مل گیا۔ ایک بھائی تھا جو میرے سے کافی چھوٹا تھا۔
ان ہی دنوں میں میرا داخلہ کالج میں ہو گیا۔ اب تو مجھے اور بھی زیادہ پر لگ چکے تھے۔ سہیلیاں ساری بڑے گھروں کی اور بگڑی ہوئی۔ ان کے پسندیدہ کاموں میں فلمیں، لڑکے، ڈرامے، فیشن اور ہوٹلنگ تھی۔
ایسے ہی ایک مرتبہ ہم لوگوں نے آوٹنگ کا پروگرام بنایا۔ ہمارے گروپ میں ایک لڑکی گاڑی میں آتی تھی جس کی گاڑی اس کے انتظار میں کالج سے باہر رکی رہتی۔ کیونکہ اس کا گھر بہت دور تھا۔ ہم لوگ جب بھی آؤٹنگ کا پروگرام بناتے فضیلہ کی گاڑی پہ ہی نکلتے۔
اس دن ڈرائیور کو کالج میں ہی رکنے کا کہ کے فضیلہ نے اپنے کزن قاسم کو بلوا لیا۔ قاسم نے ڈرائیور کو ادھر ہی رکنے کا کہا اور اپنی گاڑی کا دروازہ ہم 5 لڑکیوں کیلئے کھول کے کھڑا ہو گیا۔
آپی کی شادی کے بعد جیسے میرے خیالات ایک دم سے بدل گیے تھے۔ مجھے بھی اب کوئی ایسا انسان چاہئیے تھا کہ جو میرے انتظار میں گھنٹوں بیٹھا رہے۔ میری ایک جھلک دیکھنے کیلئے آنکھیں بچھائے۔ میری ایک، ایک ادا پہ سو جان سے قربان ہو۔
قاسم کو دیکھتے ہی میرے دل نے اس کے حق میں فیصلہ دیدیا۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی آپو کی شادی پہ کتنے ہی کزنز نے مجھے متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن کوئی بھی دل کے دروازے پہ دستک دینے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ لیکن قاسم کی ڈریسنگ، اس کا ہئر سٹائل اس کا لگایا ہوا پرفیوم، اس کی کلایی کی ڈائمنڈ والی گھڑی۔
قاسم ہر لحاظ سے ایسا تھا کہ کسی بھی لڑکی کا خواب ہو سکتا تھا۔ جب ہم لوگ گاڑی میں بیٹھنے لگے اور اس نے مجھے آتے دیکھا تو فرنٹ سیٹ کا دروازہ میرے لیے کھول دیا۔ میں ایک بہت روائتی گھرانے کی لڑکی تھی لیکن میں اپنی ہمت پہ آج تک حیران ہوتی ہوں کہ میں کیسے اس کے ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھ گئی تھی۔
اس دن ہم لوگوں نے بہت مزے کئے، پہلے لانگ ڈرائیو پہ گیے، پھر جوس وغیرہ پیا، اور چھٹی کے ٹائم تک کالج واپس پہنچ گئے۔ اس شام کے بعد قاسم نے فضیلہ سے میرے گھر کا نمبر لے کے میرے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی۔
میں نے آپو کو سب کچھ بتایا اور اپنی پسندیدگی بھی قاسم کیلئے بتائی۔ آپو نے کہا کہ اگر وہ واقعی تمہارے ساتھ مخلص ہے تو اپنے گھر والوں کو بھیجے۔ لیکن میری امی ابو نے ان کے گھر والوں سے ملنے کے بعد نہ صرف انکار کر دیا بلکہ میری شادی جلد از جلد کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔
میں نے بہت کوشش کی کہ گھر والوں کو سمجھا سکوں کہ میں قاسم کو دل و جان سے پسند کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ کسی اور کے ساتھ خوش نہیں رہ سکوں گی۔ پھر ایک دن بابا نے مجھے بہت پیار کیا اور مجھے سمجھایا کہ ہم تمہاری خوشی کے دشمن نہیں ہیں۔
چند سال پہلے تک وہ متوسط سے بھی کم تر طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ہمیں ان کی غریب ہونے پہ قطعاً اعتراض نہیں لیکن اس کا باپ ایک ایسے محکمے میں ہے جہاں رشوت کی ریل پیل ہے۔ چند ہی سالوں میں ان لوگوں نے یہ سب کچھ حاصلِ کر لیا ہے۔
جہاں تک بات قاسم کی ہے اس نے میٹرک بھی بڑی مشکل سے پاس کی ہے۔ اس میں اس کے علاوہ اور کوئی خوبی نہیں کہ وہ ایک رشوت خور باپ کا امیر بیٹا ہے۔ مجھے سب گھر والوں نے مل کے بلکہ باندھ کے میرا رشتہ آپی کے دیور سے طے کر دیا۔
وہ شریف سا لڑکا جو سارا دن کتابوں میں سر گھسائے بیٹھا رہتا تھا۔ نہ اس نے کبھی اچھی ڈریسنگ کی، نہ اچھا ہئر سٹائل بنایا، نہ قیمتی پرفیوم لگائے نہ اسے اچھی گفتگو کا کوئی سلیقہ تھا۔ مجھے اس کی دلہن بنا کے اس کے سنگ روانہ کر دیا گیا۔
میں آج اعتراف کرنا چاہتی ہوں کہ شادی کے ابتدائی سالوں میں، میں نے جمال کو بہت ٹف ٹائم دیا۔ جو دن ہنسنے، کھیلنے، گنگنانے اور پیار محبت کے تھے وہ میں نے روتے دھوتے جھگڑتے گزار دئے۔ آفرین ہے میرے شوہر پہ کہ اس نے کبھی مجھ سے کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا۔
آپو نے میری ہر کمی، کوتاہی پہ پردہ ڈالا اور اپنے پاس سے ہمارے سسرالیوں کو تحفے تحائف دے کے یہ کہنا کہ یہ ہم دونوں کی طرف سے ہیں۔
میں مائیکے آئی ہوئی تھی۔ میری واپسی میں دو دن رہ گئے تھے۔ اب میں نے کچھ کچھ اپنے دل کو اللہ کی رضا کے ساتھ باندھ کے جمال کے لیے اپنے حسن و جمال کی حفاظت بھی شروع کر دی تھی۔ جس کیلئے اب پارلر بھی جاتی رہتی تھی۔
جب میں پارلر پہنچی تو وہاں میری کالج کی دوست عالیہ پارلر پہ باقی ورکر لڑکیوں کے ساتھ کام کر رہی تھی۔ گو کہ ہم دونوں کے حالات اور شکلیں پہلے سے بہت مختلف تھیں لیکن ہم نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ عالیہ بہت کمزور اور خستہ حال نظر آ رہی تھی۔ جبکہ میں پہلے سے زیادہ صحت مند اور خوبصورت نظر آ رہی تھی۔
میں نے اسے اگلے دن دعوت دی کہ وہ آ جائے میں اپنی امی کی طرف آئی ہوئی ہوں۔ اگلے دن وہ آئی تو میں اسی کے انتظار میں تھی۔ ہم لوگ گلے ملے اور اسے لے کے میں اپنے کمرے میں چلی آئی۔
عالیہ نے بتایا کہ جب تمہاری طرف رشتہ ہونے سے قاسم کو انکار ہو گیا تو اس نے فضیلہ سے میرا نمبر لیا۔ کچھ دن ادھر، ادھر کی باتوں کے بعد اس نے مجھے پروپوز کر دیا۔
میں تو پہلے دن سے اسے دل و جان سے پسند کرنا شروع ہو چکی تھی۔ میرے گھر والوں نے میری شدید مخالفت کی لیکن میں شروع سے ہی اپنی من مانیاں کرنے والی لڑکی تھی۔
آخر کار گھر والوں نے آئندہ کیلئے ساری زندگی کیلئے قطع تعلقی کی شرط کے ساتھ میری شادی قاسم سے کر دی۔ بغیر کسی جہیز کے میرے سسرال والوں نے مجھے دل سے ایک دن بھی قبول نہیں کیا۔
شادی کے بعد صرف چند مہینے اچھے گزرے۔ سسر کو غبن کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ پھر بعد میں جبری ریٹائرمنٹ دے کے گھر بھیج دیا گیا۔ قاسم نہ صرف یہ کہ کوئی کام نہیں کرتا بلکہ نشہ بھی کرتا ہے۔ آئے دن مار پیٹ اس کا معمول ہے۔
میں آج کل یہاں پارلر پہ کام کرتی ہوں۔ بس شاید کبھی دن بدل جائیں اس آس پہ زندہ ہوں۔
مجھے بہت دکھ ہوا اس کی کہانی سن کے کاش کہ وہ اپنے ماں باپ کا کہا مان لیتی اور الحمد للہ کہ میں نے گھر والوں کی بات مان کے جمال سے شادی کیلئے سر جھکا دیا تھا۔
اب میں زیادہ لگن اور محبت سے اپنے گھر جانے کی تیاریاں کر رہی ہوں۔ ہمارے ماں باپ ہمارے لیے کبھی برا نہیں سوچتے۔
جو کام بظاہر مناسب نہیں لگ رہے ہوتے ان میں بھی والدین کی موجودگی اور دعاؤں کی وجہ سے اللہ برکت ڈال دیتے ہیں۔