1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Boorhon Se Apna Dil Tang Mat Karen

Boorhon Se Apna Dil Tang Mat Karen

بوڑھوں سے اپنا دل تنگ مت کریں

ساس امی کی زندگی میں عید کرنے گاؤں جایا کرتے تھے۔ ہمارے پہنچنے سے پہلے ساس امی صحن میں پانی کا تروکا (چھڑکاؤ) کروا کر جھاڑو لگوا دیتی تھیں۔ صحن میں کیکر کے نیچے چارپائیوں پر کھیس اور تکئے، گھڑونچی پر لال سرخ گھڑے اور دوسرے کیکر کے ساتھ پینگ جھول رہی ہوتی تھی۔ جس کو وہ ہمارے واپس سرگودھا آنے کے اگلے دن اتار کر اپنے دو کنڈوں والے بکسے میں رکھ دیتیں تھی۔

اس مرتبہ جب میں چھٹیوں میں گاؤں گئی تو بڑا دل کیا کہ اسے نکال کر کیکر کے ساتھ باندھ کر نواسیوں کو جھولے دوں۔ پھر میں نے سوچا یہ ڈزنی لینڈ والے بچے ہیں انہیں کہاں پسند آئیں گی یہ پینگیں اور یہ جھولے۔ یہ تو ہماری یادیں ہیں یا شاید کچھ، کچھ ہمارے بچوں کی بھی ہوں۔

خیر بات دوسری طرف چلی گئی۔ تو جب گاؤں جاتے تھے تو ہم تو مہمان ہوتے تھے اور اس وقت ساس امی کی صحت بھی ٹھیک ہوتی تھی تو وہ یخنی پلاؤ اور کھیر بنا کر ہمارا انتظار کر رہی ہوتی تھیں۔ عید والے دن نمک گوشت بنتا تھا جس میں آخری آئٹم پسی ہوئی کالی مرچیں ڈالنے والا ہوتا تھا۔

پھپھو نے مجھے کہا کہ میں گوشت بنا رہی ہوں۔ کالی مرچیں میں نے پہلے ہی پیس کر رکھ دی ہیں تم ایسا کرو کہ مجھے وہ پکڑا دو۔

"پھپھو کہاں پڑی ہیں؟"

"وہ چوبارے میں پڑچھتی کے اوپر پیتل کے دیگچے میں ہاتھ مارو تو اندر ایک چھوٹا سرپوس ہو گا، اس کا ڈھکن اتارو گی تو اندر ایک شاپر ہو گا۔ اس کے اندر دو پوٹلیاں ہوں گی۔ ایک پوٹلی میں زردے کا رنگ پڑا ہو گا وہ باہر سے ہی پتہ چل جائے گا۔ اسے مت کھولنا، اس کے ساتھ کپڑے کی نیلی پوٹلی میں کالی مرچیں پسی ہوئی پڑی ہوں گی، وہ لے آؤ۔

ہائیں۔ یہ کیا۔ پھپھو! مجھے تو سمجھ ہی کچھ نہیں آئی پیتل کے دیگچے میں۔ آگے کیا کہا آپ نے۔ نیلی تھیلی؟

یار یہ کونسی اتنی بڑی سائنس ہے۔ جاؤ گی، تو مل ہی جائے گا جو کچھ چاہئے ہے۔

سرتاج نے آنکھیں دکھائیں۔

"اتنی سائنس نہیں تو خود ہی نکال کر دے دیں"۔ میں نے بھی جوابی آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا۔

سرتاج نے اندر آ کر اپنے لمبے قد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کھڑے کھڑے ہاتھ بڑھا کر دیگچہ اٹھا کر نیچے رکھا اور میں نے اندر سے سرپوس نکالا۔ اس کے اندر سے شاپر نکالا۔ اس کے اندر سے دو پوٹلیاں نکالیں۔ پہلے انہیں گھورا۔ پھر ان سے دعا سلام لی (ٹٹول کر)۔ پھر مطلوبہ پوٹلی برآمد کر کے باقی واپس اسی ترتیب سے رکھنا شروع کی۔ ادھر پھپھو آوازیں لگا رہی تھیں۔

"کیا ہوا۔ اتنی دیر کر دی۔ دیگچے نے ہاتھ پکڑ لیا"۔

"اف۔ اتنی سنبھال کر تو میں اپنی ڈائمنڈ کی انگوٹھی نہیں رکھتی۔ آ رہی ہوں پھپھو۔ بس ہاتھ چھڑا کر۔ او، نہیں چیزیں سنبھال کر آ رہی ہوں۔ "

یہ واقعہ آج اس لئے یاد آیا کہ پوتا بھاگا بھاگا آیا اور مجھے کہا "دادی جان، مجھے ٹیپ چاہئے ہے میرا صفحہ پھٹ گیا ہے۔ آپ کے پرس میں ہے۔ زرا دے دیں۔ مجھے ماما نے بھیجا ہے۔ "

آخری فقرہ اس نے میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اضافی بولا۔ کیونکہ میں اسے مشکوک نظروں سے گھور رہی تھی۔ میں نے کہا "بیٹا صفحہ آپ کی کتاب کا پھٹا ہے، آپ کا نہیں اور ٹیپ جب پتہ ہے میرے پرس میں ہے اور ماما سے بھی پوچھ کر لینی ہے تو لے لو جا کر۔ "

"نہیں دادی جان۔ آپ خود نکال کر دیں، مجھے نہیں ملے گی"۔

"لو۔ یہ کیا مشکل ہے۔ پرس کی درمیانی زپ کھولو، اس کے اندر ایک چھوٹی زپ ہو گی اسے کھولنا۔ اس کے اندر ایک سبز رنگ کی چھوٹی سی زپ والی تھیلی پڑی ہو گی۔ اس کو کھولنا تو اس میں اور کسی چیز کو ہاتھ مت لگانا۔ (چھوٹی قینچی، ناخن تراش، موچنا وغیرہ) بس سامنے ہی ٹیپ پڑی ہو گی۔

اور ساتھ ہی یاد آ گیا کہ یہی سارا سامان تو میری امی کے آخری دنوں میں ان کے پاس ہوتا تھا۔ اور یہی ساری باتیں تو ہماری ساس امی کرتی تھیں۔ اور اب میں بھی ان کی عمر میں پہنچ کر ویسا ہی کر رہی ہوں۔

اب مجھے لگتا ہے کہ سارے بوڑھے، سارے جوان اور سارے بچے ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ اس لئے بچوں کو شرارت سے مت روکیں، جوانوں کو طاقت کا مظاہرہ کرنے سے مت روکیں۔ اور بوڑھوں سے اپنا دل تنگ مت کریں۔

ہم سب نے بوڑھا ہو کر ایک ہی جیسا ہو جانا ہے۔

Check Also

Akbar Badshah, Birbal Aur Modern Business

By Muhammad Saqib