1.  Home
  2. Blog
  3. Umm e Ali Muhammad
  4. Bad Ne Bad Jana Mujhe

Bad Ne Bad Jana Mujhe

بد نے بد جانا مجھے

پچھلے چند دنوں سے، میں لاہور ہوں، چھوٹی بیٹی کی طبیعت کافی خراب تھی۔ جب میں لاہور پہنچی تو بجائے گھر جانے کے سیدھی ہسپتال چلی گئی۔ ہسپتال گئی تو بیٹی کو کمرہ وغیرہ مل چکا تھا جب وہاں دیکھا تو بیٹی کے کمرے کے سامنے وہ کمرہ تھا جہاں کچھ عرصہ پہلے میری سرجری ہوئی تھی۔

مجھے یاد ہے میری سرجری ہوئی تو یہی مہینہ تھا اگست کا۔ جب مجھے آپریشن تھیٹر میں لیکر جانا تھا تو میں بھاگتی ہوئی آئی اور اپنے آپریشن والے ٹیبل نما بیڈ پر لیٹ گئی۔

ڈاکٹر بڑی حیرت سے مجھے دیکھ رہی تھی پھر کہتی ہے"یہاں تو اکثر مریضوں کو اسٹریچر پر لایا جاتا ہے آپ بڑی ہمت والی ہیں"۔

میں جتنی ہمت میں تھی بچے اتنے ہی پریشان تھے، کسی وقت خون کا انتظام کرنا، کسی وقت ٹیسٹس کے رزلٹ کی فکر، کبھی دوائیوں کی بھاگ دوڑ۔ جبکہ مجھے صرف ایک فکر کہ سرتاج کو، کوئی نہ بتائے کہ میری یہاں سرجری ہو رہی ہے۔

دراصل انہیں ان دنوں ہارٹ اٹیک ہوا تھا تو انہیں میں پریشان کرنا نہیں چاہتی تھی اس لئے بچے چھٹیوں میں سیر سپاٹے کے بہانے میرے ساتھ تھے اور یہاں آ کر میں ہسپتال داخل ہو گئی۔

میں کیوں کہ اپنے آپریشن کے منصوبے کے ساتھ آئی تھی اس لئے میرے اٹیچی میں باقی ضروری چیزوں کے ساتھ ساتھ پانچ، چھ نئے جوڑے کپڑوں کے، میک اپ کا سامان، پرفیوم وغیرہ موجود تھے۔

جونہی مجھے ہوش آیا بیٹی سے کہا کہ پہلے مجھے towel bath دو، پھر میرے کپڑے تبدیل کرواؤ، مجھے ہلکا سا میک اپ کرو اور پرفیوم بھی لگوا دو۔

جب ڈاکٹر صاحبہ راؤنڈ پر آئیں تو میرے کمرے میں سب سے زیادہ فریش میں خود تھی۔

ڈاکٹر مجھے دیکھ کر ہنس پڑی اور میرے بچوں سے کہا"ایسی مریض میں نے پہلی مرتبہ دیکھی ہے، اتنی خوش مزاج اور خوش لباس"۔

ڈاکٹر نے مجھے تھوڑا زیادہ وقت دیا پوچھتی رہیں کہ آپ کیا کرتی ہیں، کیا تعلیم وغیرہ؟ جانے سے پہلے کہتی ہیں"آپ جیسی خواتین مجھے بہت پسند ہیں"۔

اب جب میں بیٹی کے پاس پہنچی اور کچھ اوسان بحال ہوئے تب میں نے اپنے حلئے پر غور کیا تو میری حالت ٹھیک نہیں تھی۔

کچھ تو یہ وجہ تھی کہ ایک ہی رات پہلے میں گاؤں سے واپس آئی تھی تو وہ تھکاوٹ بھی تھی دوسرا یہ کہ اپنی تکلیف بندہ سہ لیتا ہے لیکن بچوں کی تکلیف برداشت کرنی بہت مشکل ہوتی ہے۔

خیر جب بیٹی کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو میں نے اپنا حلیہ درست کیا۔ کپڑے بدل کر واش روم چپل اتار کر (گھر سے انہیں چپلوں میں ہی آ گئی تھی) بیگ میں موجود میچنگ جوتے وغیرہ پہنے، پرس لیا اور نیچے آ گئی کیوں کہ ٹیسٹ کی رپورٹس کے حوالے سے چند باتیں ڈاکٹر سے پوچھنی تھیں۔

ڈاکٹر صاحبہ کچھ مصروف تھیں تو تھوڑی دیر انتظار گاہ میں انتظار کیا یہاں کافی خواتین اپنے اپنے مسائل پر بات چیت کر رہی تھیں۔

مجھے دیکھا مجھ سے بھی پوچھا کہ آپ کا اپنا چیک اپ ہے؟

میں نے کہا کہ نہیں بیٹی کا ہے۔

اب انہیں پتہ نہیں کیوں لگا کہ میری بیٹی نہیں بلکہ بہو داخل ہے ہسپتال میں۔

جب ڈاکٹر صاحبہ فارغ ہوئیں تو انہوں نے پہلے مجھے بلوا لیا کیونکہ مجھے صرف کچھ رپورٹس کے بارے میں بات چیت کرنی تھی۔

جلد ہی میں فارغ ہو کر کمرے سے باہر نکل آئی۔

وہاں موجود خواتین کی کمر میری طرف تھی اور وہ آپس میں، میرے بارے میں ہی بات کر رہی تھیں۔

ایک نے کہا۔ یہ اپنی بہو کے ساتھ آئی ہے نا۔

دوسری نے کہا۔ "ہاں اس کی بہو بچاری کا تو کوئی حال ہی نہیں رہا ہوا۔

پہلی والی نے کہا۔ "اپنے نخروں سے فرصت ملے تو اس غریب کو دیکھے نا"۔

دل تو چاہا کہ انہیں جواب دوں کہ پہلی بات تو یہ کہ وہ میری بیٹی ہے بہو نہیں، دوسری بات یہ کہ مجھے میری بہوویں اپنی بیٹیوں جیسی ہی عزیز ہیں اور تیسری بات یہ کہ یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ جو خاتون خود اچھا پہننے اوڑھنے والی ہے وہ اپنے گھر والوں کا خیال نہیں رکھتی ہو گی؟

لیکن میں نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔

افسوس ہوتا ہے کہ ابھی بھی ہمارے ہاں اس قدر جہالت ہے۔

نیک نے نیک سمجھا، بد نے بد جانا مجھے

جس کا جتنا ظرف تھا، اُتنا پہچانا مجھے

Check Also

Madawa Kon Kare Ga?

By Dr. Ijaz Ahmad