Apna Pakistan
اپنا پاکستان
اس کی اور میری دوستی کچھ نہیں تو 40 سال پرانی ہے۔ بچے بھی ہمارے ساتھ ساتھ ہی پیدا ہوئے۔ بچوں کے سکولوں میں داخلے بھی اگے پیچھے ہوے۔ پہلی دوسری اور تیسری پوزیشنیں ہم دونوں کے بچوں کی ہی ہوتی تھیں۔ گھر بھی ایک ہی محلے کی ایک ہی لائن میں تھے۔
لیکن اس کا شوہر ایک سرکاری(انتظامیہ) کی بہت اچھی پر پوسٹ تھا۔ جس وجہ سے اختیارات اور ٹہکا وغیرہ اس کابہت اچھا تھا۔ لیکن ہمارے بیچ نہ کبھی کوئی احساس کمتری پیدا ہوا نا کبھی کوئی احساس برتری۔
میرے پاس vision تھا اسکے پاس وسائل تھے۔ اس لئے وہ میرے سے بچوں کی تعلیم، اچھے تعلیمی اداروں یا یونیورسٹیوں کے بارے معلومات لیتی رہتی یا میرے بچوں کیلئے کئے گئے میرے وظائف کے بارے رہنمائی لیتی رہتی۔ اور میں اس سے گھر سجانے یا میک اپ کے بارے یا کپڑوں کے ڈیزائن کے متعلق پوچھتی رہتی اور اکثر اس کے ڈیزائن کردہ کپڑے لیکر، اسی طرح کے خود ہی سلائی کر لیا کرتی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ وظائف پڑھنے کا ہم دونوں کو بہت شوق تھا عمومآ جب میں کچھ پڑھائی بچوں کیلئے شروع کرتی تو وہی پڑھائی وہ بھی شروع کردیتی۔ ہم دونوں کے بچوں کی تعلیم ایک ہی سکول ایک ہی کالج اور ایک ہی یونیورسٹی میں ہوتی رہی۔
اللہ کی خاص مہربانی یہ رہی کہ ہمارے بچے ہماری محنت، ہماری دعاؤں اور ہماری توقعات سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے اپنی اپنی ڈگریاں لیکر فارغ التحصیل ہوئے۔ اب بچوں نے اپنی نوکریوں کیلئے تگ و دو شروع کی۔ انہی دنوں اس کی بیٹی فارینہ کا رشتہ بھی طے ہوگیا۔
بیٹی کی سسرالی فیملی امریکہ میں مقیم تھی۔ تو فارینہ بیاہ کر امریکہ سدھاری۔ قسمت سے اس کو بہت اچھا سسرال ملا۔ شادی کے کچھ عرصے کے بعد فارینہ نے اپنے بھائی شاہد کو بھی وہاں بلوا لیا۔ شاہد نے بیچلر کی ڈگری پاکستان کی بہت اچھی یونیورسٹی سے حاصل کی تھی اس نے MS وہاں جا کر کیا اور ساتھ ہی وہیں جاب بھی ہو گئی۔
ناعمہ نے کچھ عرصے کے بعد اپنی بھانجی سے بیٹے کی شادی کردی اور اس کی بہو بھی امریکہ چلی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس سے چھوٹے کی بھی وہاں ہی جاب کا سلسلہ بن گیا۔ کچھ عرصے کے بعد ناعمہ کے شوہر کی ریٹائرمنٹ ہو گئی تب دونوں بھائیوں نے اپنے والدین کیلئے ویزہ اپلائی کیا جب ان کا ویزہ آگیا تو انہوں نے بھی جانے کی تیاری شروع کی۔
ناعمہ کے جانے سے پہلے ہم ساری دوستوں نے ایک چھوٹی ساری الوداعی پارٹی کا انتظام کیا۔ ہم جب بھی اکھٹے ہوتے تو گویا سکول کالج کے زمانے میں پہنچ جاتے۔ وہ شام بڑی خوشگوار اور یاد گار تھی۔ ہم ان باتوں کا یاد کر کے ہنستے رہے۔
جب ناعمہ اپنے نئے سوٹ کا ڈیزائن ہمیں نہیں دیتی تھی لیکن جونہی وہ پہن کے آتی اگلے ہی ہفتے اسی طرح کا شگفتہ نے پہنا ہوتا۔ اور ناعمہ روہانسی ہو کر کہتی"باجی میں نے اس سوٹ کی 2 سو سلائی دی تھی اور اس شگفتہ کی بچی کو دیکھیں 25-25 روپے دیکر میرے والے ڈیزائن بنوا لیتی ہے۔
اور میں مزید اضافہ کرتی "شگفتہ تو 25 روپے دیکر سلائی کرواتی تھی جب کہ میں تو الٹی سیدھی سلائیاں لگا کر خود ہی سلائی کر لیتی تھی۔ اور پھر زوردار قہقہہ۔
امریکہ جانے کے بعد شروع شروع میں تو اس کی تصویریں آتی تو بڑی خوش نظر آتی تھی۔ پھر اہستہ آہستہ تصویریں کم ہوتی ہو گئیں۔ لیکن فون پر رابطہ ہو جاتا تھا پھر سنا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں۔۔
قارئین۔۔ پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس کے جانے کے بعد ہماری بھی طبیعتیں تھوڑی تھوڑی خراب رہنی شروع ہو چکی تھیں۔ جس کی ایک بڑی وجہ ناعمہ کی وہاں سے بھیجی گئی تصویریں تھیں۔ بڑے بڑے شاپنگ مالز کے باہر کھڑی ہوئی، کبھی نیاگرا فال، کبھی ریڈ ٹیگ کے کپڑے تو کبھی گوچی کے پرس۔۔
تقریباً سال کے بعد دونوں میاں بیوی واپس آئے تو اس کا وہ رنگ روپ نہیں تھا، ملاحت بھرے چہرے کی جگہ سخت جلد، بے رنگ بال، نازک ہاتھ اور صفائی سے ترشے ہوئے کیوٹیکس لگے ناخنوں کی جگہ کھردرے ہاتھ پاوں اور ٹیڑھے میڑھے ناخن۔۔
اس مرتبہ بھی ہم ساری دوستوں نے ایک شام مل کر گزارنے کا پلان بنایا۔ اسکے جانے کے بعد ہمارا بھی ملنا ملانا کافی کم ہی رہا۔ میں بچوں کے رشتوں کے سلسلے میں مصروف رہی، شگفتہ کی کچھ طبیعت خراب تھی اور ساجدہ اور عالیہ اپنے سسرال والوں کا کاموں میں گوڈے گوڈے دھنسی ہوئیں تھیں۔
خیر ایک شام سب کا میرے گھر انے کا پروگرام تھا۔ میری ہیلپر کو میں نے کہا کہ اپنی بیٹی کو بھی ساتھ لیکر آئے تاکہ شام کی چائے کا کام اچھے طریقے سے ہو سکے۔ شام کی چائے کیلئے کیک، چکن روسٹ، سیخ کباب، پودینے کی چٹنی، چکن تکہ دو، تین قسم کے بسکٹ فروٹ چاٹ اور رشئن سلاد جو میرے اپنے طریقے سے بنتا ہے کے ساتھ ساتھ جوس، کولڈ ڈرنک اور چائے وغیرہ کا انتظام تھا۔ یہ سارے لوازمات میری ملازمہ نے میری نگرانی میں تیار کئے تھے۔
ہماری پانچوں کی آپس میں دوستی ایسی تھی کہ ہمارے پاس غیبت کا ٹائم ہی نہیں ہوتا تھا۔ ہم سب کے پسندیدہ موضوعات کرکٹ، فیشن، سیاست، عبادت (وظائف) بچوں کی تعلیم اور ان کے رشتے ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ بے تکلفی ایسی تھی کہ آپس میں ایک دوسرے کا مذاق بنا کر خوب لطف اندوز ہوتے تھے لیکن شستہ مذاق، جس میں دل آزاری نہ ہو۔
مثلاً میرا سوٹ اگر اچھا تھا اور عالیہ نے پوچھا کہ کیا قیمت ہے اس کی؟"بس ایک ٹائم کی بھوک ہڑتال اور آدھے گھنٹے کا رونا دھونا۔ اور پھر ہنسی کے فوارے۔
یا ساجدہ پرس خریدنے کے معاملے میں بہت کنجوس تھی تو اج اس کا نیا پرس دیکھ کر عالیہ نے کہا "نیا پرس اٹھا کر، آج ہماری واقف نہیں بن رہی وہ زمانہ یاد ہے جب تمہارا وہ ایک ہی پرس دیکھ دیکھ کر ہمیں غش پڑ جاتا تھا۔
اور پھر ساجدہ کا جواب "ہاں وہ بھی یاد ہے جب تم میرا سوٹ ایک دن کیلئے مانگ کر پہن جاتی تھی اور پھر دس فنکشن بھگتا کر واپس دیتی تھی۔ اور ہنسی کے پھواریں۔
عالیہ کو یاد کروایا کہ جب تم ہمارے گروپ میں شامل ہوئی اور پہلی مرتبہ جب ہمارے گھر آئی تو تین بچے میرے، تین ناعمہ کے، دو ساجدہ کے اور دو، تین سہیلیاں میری بیٹی کی، سب مل کر کھیل رہے تھے۔
انہیں دیکھ کر عالیہ نے پوچھا "باجی۔۔ اے انے وڑے بچے سارے تہاڈے نیں؟ اور پھر بے ساختہ ہنسی۔۔
اب ہم نے باتوں کا رخ ناعمہ کی طرف کر دیا کہ اب تم بتاؤ امریکہ کیسا ہے؟ تمہارا وقت وہاں کیسا گزرا؟ اب تمہیں یاد تو اتی ہوگی وہاں کی پر آسائش زندگی؟
"توبہ کرو جی، بڑی مشکل سے وہاں سے جان چھڑا کر آئی ہوں اور اب کبھی نہیں جانا دوبارہ۔۔
اس کی کہانی اس کی زبانی سنا دیتی ہوں "باجی جب میں گئی تو نومبر کا آخری ہفتہ تھا۔ موسم کافی سرد تھا تھینکس ڈے کی چھٹیاں تھیں بچوں کو۔ ہم دونوں میاں بیوی کو ہہت اچھا لگ رہا تھا بچوں کے پاس جانا۔
شروع والی چھٹیوں میں بچوں نے ہمیں خوب سیریں کروائیں۔ امریکہ کی ہر وہ جگہ جو ان کے قریب تھی اور قابل دید تھی وہاں لیکر گئے۔ شکاگو میں اکثر پاکستانی کھانا طباق یا بندو خان پر جا کر کھایا کرتے۔
جب چھٹیاں ختم ہو گئیں تو بہو اور دونوں بچوں نے جاب پر جانا شروع کر دیا۔ ہم ان کی طرح کا کھانا نہیں کھا سکتے تھے اس لئے مجھے آٹا گوندھنا ہوتا۔ برتن دھو کر سالن بنانا ہوتا تھا۔ بعد میں آٹا گوندھنے والی مشین لے لی تھی لیکن پھر بھی کافی چیزیں تھیں جو مجھے خود دیکھنی ہوتی تھیں۔
گھر سے باہر جاتے تھے تو حلال کھانے کا مسئلہ ہوتا صرف بسکٹ یا چند مخصوص چیزیں ہی کھا سکتے تھے۔ جب طبیعت خراب ہوتی تھی تو اگر بخار اب ہے لیکن چیک اپ اپنی باری پر ہوتا تھا چاہے اس وقت تک بندہ لوٹ پوٹ کر خود ہی ٹھیک ہو جائے۔ یہاں پاکستان میں تو جب طبیعت خراب ہوتی اسی وقت ڈاکٹر کے پاس پہنچ جاتے تھے۔
دوسرا مسئلہ زبان والا تھا بڑی مشکل سے ایک سکھ فیملی ملی جس کے ساتھ پنجابی میں بات چیت کر کے کچھ دل ہلکا کرنے کا سوچا تھا لیکن جب اس سے بات ہوئی تو اس نے تو دل بالکل ہی توڑ کر رکھ دیا۔
اس نے پوچھا آپ کہاں کام کرتی ہیں؟ میں نے بتایا۔۔ گھر پر رہتی ہوں۔
"پھر تو تم نرا سیاپا ہو اپنے بچوں کیلئے۔۔ اور کچھ نہیں تو "صفورا، پر ہی جاناشروع کردو۔ اور میں حیران پریشان کہ کیا یہاں ماں باپ اتنا بوجھ ہوتے ہیں بچوّں پر؟
اور۔۔ یہ جو تم ساری سہیلیاں یہاں پر دعوتیں کرتی ہو ایک دوسرے کی، تم سب کے پاس ہیلپرز ہیں گھروں میں، وہاں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جب کبھی گھر میں کسی کی دعوت ہو تو ہفتہ بھر پہلے تیاری شروع کرتے ہیں تو تب ساری چیزیں وقت پر تیار ہوسکتی ہیں۔
جب میری بہو کا مس کیرج ہوا تو اس بیچاری نے دوسرے دن ہی اٹھ کر گھر کو دیکھنا شروع کر دیا تھا جبکہ یہاں جب ایک مرتبہ میرےساتھ ایسا ہوا تھا تو سب گھر والوں نے مجھے خوب ریسٹ کروایا، کھانے پینے کا بہت دھیان رکھا۔
عورت ایسے حادثے کے بعد اندر سے بہت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے تو اسے جذباتی طور پر بھی سہارے کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔۔ لیکن میں کوشش کے باوجود اس کو اس طرح سہارا نہ دے پائی جس طرح دینا چاہتی تھی۔ اس کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا تھا کہ میں اس سے کچھ باتیں کروں اور وہ سن سکے۔
یہاں تم لوگوں کے پاس رشتے ہیں، وقت ہے، محبتیں ہیں۔ وہاں زندگی بھاگم بھاگ گزر رہی ہے۔
بھئی سچی بات ہے اپنا وطن، اپنا وطن ہی ہوتا ہے۔ اگر پاکستان میں انصاف، محنت کی قدر، تعلیم، صحت کے حالات بہتر ہو جائیں تو اپنے ملک جیسی کوئی چیز نہیں۔
تم سب تو یہاں شہزادیاں ہو شہزادیاں، اور مجھے کیا ضرورت ہے اپنی راجدھانی، اپنی حکومت چھوڑ کر پچھلی عمر پردیسوں میں دھکے کھاتی پھروں۔ جہاں ایک پورے سال میں محلے کی مسجد سے ایک مرتبہ بھی آذان کی آواز کانوں میں نہ پڑی۔
اپنا پاکستان، اپنی جائے امان
اللہ اسے سلامت رکھیں