Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rubina Faisal
  4. Nirav Modi Aur Hamare Sharif Zade

Nirav Modi Aur Hamare Sharif Zade

نیراؤ مودی اور ہمارے شریف ذادے

14فروری 2018۔ نیراؤ مودی مالی کرپشن کے سکینڈل نے پورے ہندوستان میں تھرتھرلی مچا دی تھی۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے دیکھئے نیراؤ مودی کون تھا۔

نیراؤ مودی، گجرات انڈیا کے ہیروں کے بیوپاری خاندان کا ایک چشم و چراغ ہے۔ 1971 میں گجرات میں پیدا ہونے والے اس فطین انسان نے ابتدائی تعلیم بیلجئیم میں حاصل کی اور مزید تعلیم کے لئے اسے امریکہ بھیجا گیا مگر وہ منزل وہیں پر ادھوری چھوڑ کر وطن واپس لوٹ آیا کہ کتابیں اسے اپنے دماغ سے بہت چھوٹی لگی ہوں گی۔ یوں وہ، انیس برس کی بالی عمر میں ہی اپنے خاندانی ہیروں کے بیوپار میں شامل ہو گیا۔

یاد رہے کہ اس شخص کا لاسٹ نیم اور سیم سٹی، وزیراعظم نریندر مودی جیسا ہونے کے باوجود اس کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہیں ہے۔ اس کے اصلی چچا مہل چوکسی ہیروں اور فراڈ کے اس دھندے میں اس کے اصلی باپ ثابت ہوئے۔ اس کے چچا کا "گیتنجالی ہیروں" کا جادو ہر طرف سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ گیتنجالی ہیروں کا نام ہالی ووڈ، بالی ووڈ کی ہیروئن کے کانوں، ہاتھوں اور گلے میں جھولتا تھا۔ باپ، داد اور چوکسی چچا سے ہٹ کر اس ہونہار سپوت نے ہیروں کی دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان بنا لی اور 2004 تک کئی کمپنیاں خرید ڈالیں۔

2008 تک دیپیکا پڈکون بھی اس کے ہیروں کی پبلسٹی کرچکی تھیں۔ اب وہ ہیروں کی دنیا کا ایک بڑا نام بن چکا تھا جس کے دفاتر ہانگ کانگ، نیویارک، لندن وغیرہ میں تھے۔

لالچ کی کوئی حد ہوتی تو آج ہم شریف اور زرداریوں کو نہ رو رہے ہوتے، دکھ تو یہی ہے کہ اتنا پیٹ بھرنے کے بعد بھی ہوس ختم نہیں ہوتی، یہی اس نیراؤ مودی کے ساتھ ہوا۔ اس نے انڈیا کے پنجاب نیشنل بنک سے لیٹر آف انڈر ٹیکنگ حاصل کئے (ہمارے ہاں لیٹر آف کریڈٹ ہوتے ہیں اور ان کے اصول زیادہ سخت ہیں بہ نسبت انڈینز بنکوں کے اس کاغذ کے)۔ اس لیٹر کے جتنے کمزور پہلو تھے اس فطین انسان نے اس کو اچھی طرح جانچا اور سارا کھیل سمجھ گیا۔

آ پ کو لیٹر آف انڈر ٹیکنگ اس وقت ملتا ہے جب آپ بنک کو کوئی گارنٹی دیتے ہیں جیسے کو ئی فکسڈ ڈیپوزٹ، کوئی جائداد، کچھ بھی اور پھر اس کو لے کر بیرون ملک کہیں بھی انڈیا کی بنک کی برانچ کو اسے دکھا کر وہاں سے پیسے لئے جا سکتے ہیں۔ یعنی پھر اندرون اور بیرون ملک بنک آپس میں پیسوں کے معاملات کرتے رہتے ہیں۔ لیکن نیراؤ نے پنجاب بنک کے متعلقہ اعلیٰ افسران کو رشوت دے کر ساتھ شامل کیا اور بغیر کسی گارنٹی کے یہ لیٹر حاصل کرتا رہا اور اسے دکھا دکھا کر بیرون ممالک برانچز سے پیسے اینٹھتا رہا۔

یہاں تک کہ بنک کے توسط سے کروڑوں روپے لینے کے باوجود فروری 2018 تک اس نے پنجاب نیشنل بنک کو ایک بھی پیسہ واپس نہیں کیا تھا۔ یہ سلسلہ کئی سال چلا اور نہ جانے کب تک چلتا رہتا مگر شومئی قسمت، اس کے معاون افسران ریٹائرڈ ہو گئے اور بنک میں ان کی جگہ جب نئے آنے والوں نے لی تو پرانے افسران کے عادی نیراؤ مودی نے ایک دن اُسی پرانے انداز میں اپنے ماتحت کو ان نئے افسران کے پاس لیٹر آف انڈر ٹیکنگ کے لئے بھیجا مگر انہوں نے بغیر کسی گارنٹی کے ایشو کرنے سے انکار کر دیا۔ جس پر انہیں بتایا گیا کہ ہم تو سالوں سے اسی طرح بغیر کسی گارنٹی، کسی لکھت پڑھت کے چل رہے ہیں۔

بس یہ بھانڈا پھوٹنے کی دیر تھی کہ ہر طرف شور پڑ گیا۔ ساتھ میں انٹڑنیشل بنکوں کے پنجاب بنک انڈیا کو پیسے کی واپسی کے مطالبے کے لئے دھڑا دھڑ نوٹس بھی ملنے شروع ہو گئے۔ سب مل ملا کر انڈیا کے تحقیقاتی اداروں ای ڈی اور سی آئی بی وغیرہ کو رپورٹ کیا گیا۔ اور یہ سیانا جنوری میں ہی اپنے پورے خاندان کے ساتھ ملک چھوڑ کے لندن (بھگوڑوں کی جنت) جا چکا تھا۔ اس کے دفاتر میں چھاپے مارے گئے جہاں سے ان کے منی لانڈرنگ کے ثبوت بھی ملے۔

2011 سے 2017 تک پنجاب بنک کے ساتھ تقریباََ تیرہ ہزار کروڑ کا گھپلہ کیا گیا تھا اور بنک میں اس کا کوئی ریکارڈ بھی موجود نہیں تھا۔ اس دوران چچا چوکسی بھی کسی کربین ملک میں مفرور ہو چکا تھا۔ چھاپوں کے نتیجے میں تقریباََ تین ہزار کروڑ کے مال کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا اور ساتھ ہی ہندوستانی حکومت نے انگلستانی حکومت پر نیراؤ مودی کی گرفتاری کا دباؤ مسلسل ڈالنا شروع کر دیا اور اسے قومی بھگوڑا بھی قرار دے دیا گیا۔

2019 میں، سکاٹ لینڈ یارڈ نے اسے پکڑ لیا اور ابھی تک وہ ویسٹ منسٹر جیل لندن میں ہے۔ ہندوستانی حکومت کے وکیلوں نے اسے ہندوستانی تحویل میں دئیے جانے کا فیصلہ بھی لے لیا تھا مگر نیراؤ کے وکیلوں نے اس پر آج کی تاریخ تک عمل نہیں ہونے دیا، کبھی انڈیا کی جیلوں کے برے حالات اور کبھی کرونا کا بہانہ۔ ہندوستانی اداروں کے دباؤ اور فالو اپ کی وجہ سے انٹرپول بھی اسے"ریڈ کارنر" کر چکا ہے، اس وجہ سے وہ دنیا میں کہیں بھی آزادنہ آ جا نہیں سکتا ہے۔ اس کو ضمانت بھی نہیں دی جا رہی اس خوف سے کہ جتنا اس کے پاس پیسہ ہے وہ اس سے کچھ بھی خرید سکتا ہے۔

اس سیکنڈل کی وجہ سے انڈیا کی سٹاک مارکیٹ میں بھی بحران پیدا ہوا۔ اس کیس کو انڈیا کے حکومتی ادارے یہ سوچ کر سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور قومی مجرم کو وہ عبرت کا نشان بنا رہے کہ وہاں کی عوام اور وہاں کے اداروں کے لئے یہ بات ناقابلِ برداشت ہے کہ عوام کا، ہندوستان کا پیسہ باہر کے ملکوں میں کیوں پہنچایا گیا؟ اپنے ملک سے بیرون ملک پیسے کی یہ غیر قانونی ترسیل بھارتی حکومت اور عوام کے لئے ناقابلِ برداشت ہے۔

دوسری طرف ہم ہیں۔ ہمارا پیارا پاکستان۔ حدیبیہ پیپر ملز کا کیس دیکھیں، منی لانڈرنگ کا مجرم اسحاق ڈار حلف نامے پر دستحط کر چکا ہے کہ اس نے شریف فیملی کے لئے منی لانڈرنگ کی۔ لندن کی قاضی فیملی جن کے گھر سٹوڈنٹ لائف میں ٹھہرا تھا، ان ہی کے پاسپورٹ چوری کر کے، ان ہی کے نام سے پاکستان میں جعلی اکاؤنٹس کھلوا کر پاکستانی عوام کی محنت کا پیسہ ان بنکوں سے قرضے کی صورت وصول کر کے لندن میں منتقل کرتا رہا۔ وہاں جائدادیں بنتی رہیں اور پاکستانی عوام دلدل میں پھنستی گئی۔

رحمٰن ملک نے (بے نظیر دور میں) جب اس سارے معاملے کی تحقیق کی اور بی بی سی والوں نے اس پر پوری ڈاکومنٹری بنائی تو لگتا تھا ان شریفوں کا بوریا بستر مستقل طور پر گول ہو جائے گا۔ مگر افسوس ایوان فیلڈز کے وہ اپارٹمنٹس بھی وہیں رہے اور شریف بھی لوٹی ہوئی ملکی دولت سے نہ صرف بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں بلکہ ملکی معاملات بار بار ان کے ہاتھوں میں دئیے جاتے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ منی لانڈرنگ کے سہولت کار کو اسی ملک کا وزیرِ خزانہ لگا دیا جاتا ہے، جس کو وہ لوٹتا رہا ہے اور اس کا وہ خود حلفیہ اقرار کر چکا ہے۔ نراؤ مودی جیسے لوگ تو رشوت دے کر افسران کو ساتھ ملاتے ہیں، ہمارے شریف قسمت کے اتنے دھنی ہیں کہ ملک بار بار ان کے ہاتھوں کھلواڑ کرنے کے لئے پکڑا دیا جاتا ہے کہیں کچھ وہ بچ نہ جائے جو ان کے بچوں کے بچوں کے بچوں کے شکم تک نہ پہنچا ہو۔

پھر پانامہ لیکس ہوئیں، پاکستان کے علاوہ دنیا کے جس بے ایمان کا نام بیچ میں تھا اسے استعفٰی دینا پڑا مگر ہم نے پچاس روپے کے مچلکے پر شریف باپ کو جھوٹی بیماری پر ضمانت پر چھوڑ دیا اور پروٹوکول کے ساتھ لندن کی محفوظ جنت میں خود بھیجا اور ملوث و مجرم بیٹی کو اس کی عیادت کے لئے بڑے احترام سے پیچھے روانہ کیا۔ اور اب تو حد کر دی، کہاں انڈیا اپنے فراڈئیے کو واپس بلوانے کے لئے انگلینڈ کی عدالتوں میں ٹکریں مارتا پھر رہا ہے وہاں ہم نے ایک اور شریف لٹیرے، جس پر پورے سو ارب کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کا کیس تھا، کے ہاتھ پورا ملک تھما دیا۔

اے میرے وطن کے جوانوں! کبھی آنے والی نسلیں تم سے پوچھیں تو انہیں بتانا کہ انڈیا کا وجود آج تک اس لئے برقرار ہے کہ انہوں نے قومی مجرموں کو ملک سے بھاگنے پر بھی مہنگی مہنگی جیکٹیں پہنے اور لوٹے ہوئے مال پر خریدے ہوئے اپارٹمنٹس اور محلوں میں عیش کرنے کو آزاد نہیں چھوڑا تھا بلکہ انہیں واپس ملک میں لانے اور ملک کی عدالتوں میں کٹہرے میں کھڑا کر کے حساب کتاب مانگنے کے لئے دن رات ایک کر دئے تھے۔

اور ہمارا پاکستان اس لئے برباد ہوا کہ ہم نے قومی مجرموں کو نہ صرف تحت سونپے بلکہ انہیں بار بار این آر اوز دے دے کر ان کی کرپشن کو اتنا معمولی کر دیا کہ لوگوں تک یہ پیغام بہ آسانی پہنچ گیا تھا کہ کرپشن کرنی ہے یا بنکوں سے واپس نہ کرنے کے لئے قرضے لینے ہیں تو بڑے پیمانے پر ہاتھ مارو تاکہ تمہارے پاس اتنی دولت ہو کہ پورا نظام خرید سکو۔ وکیل کیا بلکہ پوری پوری عدالتیں تمہاری باندی ہوں، تحقیقاتی ادارے ثبوت نہ پیش کریں، بیور کریسی تمہارے تلوے چاٹے اور ایجنسیاں تمہارے پر ہاتھ نہ ڈال سکیں۔

Check Also

Vella Graduate

By Zubair Hafeez