23 March Ke Tamghe Lamha e Fakhariya Ya Lamha e Fikriya?
تئیس مارچ کے تمغے لمحہ فخریہ یا لمحہ فکریہ؟
جب ہم معاشروں میں، ملکوں میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو اسکا تعلق ظاہری نہیں بلکہ روحانی تبدیلی سے ہوتا ہے۔ جسے کایا پلٹ کہتے ہیں جسے ضمیروں کا جاگ جانا کہتے ہیں۔ پاکستان میں تبدیلی یا انقلاب کیوں نہیں آسکتا؟ اسکی وجہ یہ نہیں کہ وہاں کی سر زمین زرخیز نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کا ضمیر نہ مکمل بیدار ہے اور نہ ہی مکمل طور پر مردہ۔ وہ دوسروں کی اخلاقیات کے لئے جاگتا ہے مگر جہاں اپنے چھوٹے سے مفاد کی بات بھی آجائے تو وہاں گہری نیند سو جاتا ہے بلکہ مر ہی جاتا ہے۔
یہ آدھا کچا آدھا پکا ضمیر، یہ آدھی سوئی آدھی جاگی روح، یہ معاشرے کی اجتماعی بیداری ہونے ہی نہیں دیتے۔
تمغہ ملنا فخر کا مقام ہوتا ہے مگر ایسے صدر اور ایسی حکومت سے ایوارڈ لینا لمحہ فکریہ ہے اور یہ میری اس بات کی توسیع ہے کہ ہماری قوم کا ضمیر حالت نزاع میں ہے نہ مکمل مرتا ہے نہ جاگتا ہے۔۔
آٹھ فرووری کو ہونے والے جعلی الیکشن اور اس کے نتیجے میں بننے والی غیر قانونی ناجائز پارلیمنٹ کسی بھی باشعور انسان کے لئے ناقابلِ قبول ہے۔ اور اسی پارلیمنٹ کا منتخب شدہ صدر کچے کے ڈاکوؤں سے بھی بتر ہے کہ اتنی دیدہ دلیری سے تو وہ بھی ڈاکہ نہیں ڈالتے۔
چوری شدہ عوامی مینیڈیٹ سے بنی پاکستان کی حکومت دھبہ ہے، اور اسے قبولیت کی سند دینے والے اس دھبے کا حصہ ہیں اور ایسی حکومت سے ایوارڈ قبول کرنا اصل میں انہیں قبولیت دینے کے مترادف ہے۔
تئیس مارچ کو جو ایوارڈز کی تقسیم ہوئی، اسے دیکھ کر کوئی اندھا بھی یہی کہے گا کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں میں۔۔ لیکن جو پچھلے دو سال میں ہونے والے جبر اور فسطائیت کا حصہ تھے وہ تو یہ ایوارڈ قبول کریں کہ ان کا حق بنتا ہے کہ ہم مزاج لوگ اکٹھی ہی پرواز کرتے ہیں مگر افسوس مجھے ان لوگوں پر ہے جو اس ناجائز حکومت کا نہ تو حصہ ہیں اور نہ ہی اس کو پسند کرتے ہیں مگر بڑے فخر سے سینہ تان کر جا کر ایوارڈ وصول کر آتے ہیں یعنی برائی کے ساتھ ہاتھ ملا آتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو نے کہا تھا "میرا افسردہ دل لرزتا ہے کہ یہ متلون مزاج سرکار خوش ہو کر ایک تمغہ میرے کفن سے ٹانگ دے گی، جو میرے داغِ عشق کی بہت بڑی توہین ہوگی"۔
جین پال سارتر نے انیس سو چونسٹھ میں ادب کا نوبل پرائز لینے سے انکار کردیا تھا کہ میں ادارہ گری کا شکار نہیں ہونا چاہتا اور اس طرح میں آزادی کے ساتھ لکھ نہیں سکوں گا۔
میں نہیں کہتی کہ ہر دوسرا انسان ان دو مصنفین کی طرح ہائی مورل گراونڈز پر ہی کھڑا ہو۔ مگر انسان میں اتنی اخلاقی جرات تو ہونی چاہیئے کہ اگر وہ غلط کو غلط نہیں کہہ سکتا تو کم از کم ایسے کسی عمل کا بلا واسطہ حصہ بننے سے تو خود کو پرے رکھ سکتا ہے۔ اسلام کا بھی یہی کہنا ہے کہ اگر ظلم کو ہاتھ سے نہیں روکنے کی طاقت رکھتے تو زبان سے بُرا کہو، وہ بھی نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے دل میں ہی اس کو بُرا سمجھو۔ دل میں برا سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے آگے کم از بکیں یا جھکیں تو نا۔۔ ایسے ایوارڈ خریدنے، زبان بندی کے لئے بھی دئیے جاتے ہیں۔
یا تو آپ کہہ دیں کہ پاکستان میں اس وقت یا جو کچھ پچھلے دو سالوں میں ہوا وہ سب قانونی، جمہوری اور انسانی تھا تو آپ سے کوئی سوال نہیں بنتا لیکن اگر آپ اس سب کو بُرا سمجھتے ہیں تو آپ ایسے لوگوں سے، ایسی حکومت سے کوئی بھی اعزاز کیسے وصول کرسکتے ہیں؟
کینیڈا کی ایم پی سلمی ذاہد کو ملنے والا قائد اعظم ایوارڈ اپنے اندر اور بھی بہت سے سوالات رکھتا ہے۔۔
جب ان کو ایوارڈ دیا جارہا تھا اس وقت پیچھے ایک بیان چل رہا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ فلسطین اور کشمیر میں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔۔ یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ ایسی آواز کا کیا فائدہ جو ان لوگوں کے لئے تو اٹھے جو ہم سے بہت دور ہیں مگر ان مظلوموں کے لئے خاموش رہے جن کا ہم پر کہیں زیادہ حق ہے کہ وہ ہمارے ہم وطن ہے۔ اسلام کا بھی حکم ہے کہ "خیرات اپنے گھر سے شرو ع کرو"۔
سلمی ذاہد نے یہ ایوارڈ قبول کرکے نہ صرف کینیڈین پاکستانیوں کی ظلم کے خلاف آواز کو کمزور کیا ہے بلکہ ناانصافی، چوری اور ظلم پر مبنی پاکستانی حکومت کو قبولیت دی ہے۔
زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ سلمی کا تعلق کینیڈا کی سیاست سے ہے اور وہ ان معاملات کو ہم عام شہریوں سے زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتی ہیں۔ ان سے زیادہ کون اصلی جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کو سمجھتا ہوگا اور اگر وہ کینیڈا جیسے ملک میں رہ کر، یہاں کی سیاست میں عملی حصہ لے کر بھی پاکستان میں ہونے والے غیر جمہوری، غیر قانونی اور غیر انسانی رویے کو قبول کر رہی ہیں تو پھر جان جائیے کہ صدیوں تک ہمارے ضمیر یونہی آدھے زندہ آدھے مردہ پڑے رہیں گے جو اپنے چھوٹے سے مفاد کی خاطر تو ہر ظلم سے چشم پوشی کرتے رہیں گے مگر دوسروں کے لئے اخلاقیات کے پیمانے بلند سے بلند کر تے رہیں گے۔
اپنی قوم میں تبدیلی نہ آنے کی مجھے تو ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ ہم پاکستان کو شریف خاندان کے نظرئیے پر کہ "پاکستان میں یہی سب کچھ ہوتا ہے اور ایسے ہی ہوتا ہے" کی بنیاد پر ہی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
ہم جب تبدیلی کے نعرے لگاتے ہیں تو اندر سے شاید اللہ سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یااللہ کہیں سچ مچ ہی ہماری دعا قبول نہ کر لینا۔۔ اداکارہ نرگس حج کرکے آئیں تو سٹیج ڈرامہ میں مستانہ انہیں کہتا ہے کہ "یہ تو جب دورانِ حج اپنے سدھرنے کی دعا مانگتی تھی تو ساتھ ہی دل میں کہتی تھیں یااللہ کہیں میری دعا قبول ہی نہ کر لینا، میں نیک ہوگئی تو میرا کیا بنے گا؟" تو بس ہمارا بھی تبدیلی کا نعرہ مارتے، پاکستان کو بدلنے کی خواہش کرتے یہی خوف ہوتا ہے کہ اگر سچ مچ پاکستان بدل گیا تو ہماری ان مراعات کا، ان دو نمبر سے اوپر جانے کے راستوں کا کیا بنے گا۔ تو اسی لئے اللہ بھی ہماری ظاہری دعاؤں کو نہیں ہماری اندرونی نیتوں کو دیکھتے ہو ئے ہمیں اسی حال میں رکھے ہو ئے ہے۔۔
"اے لے پھڑ اپنا پاکستان تے پراں مر"
بیرونِ ملک پاکستانیوں کی برین واشنگ کے لئے یہاں کبھی سیدہ عارفہ زہرا جیسی شائستہ سرکاری خادمہ اور کبھی جاوید چوہدری اور وڑائچ جیسے استحصالی نظام کے سہولت کاروں کو بھیجا جاتا ہے۔ رجیم چینج کے بعد بیرون ملک پاکستانی، ناجائز حکومتِ پاکستان کے گلے میں کسی ہڈی کی طرح پھنسے ہوئے ہیں اور جب وہ قابو نہیں آرہے تو اب یہاں کے مقامی سیاستدانوں کو نواز کر ایک نئے طریقے سے اپنے آپ کو قبولیت بخشوائی جا رہی ہے۔
کاش کوئی سلمی زاہد صاحبہ کو سمجھا دیتا کہ ایسے ایوارڈ لینے سے آپ کے قد میں اضافہ نہیں بلکہ کمی ہوئی ہے۔
جہاں ہمیں پاکستان میں ہونے والی کھلم کھلا بد معاشی، ہٹ دھرمی، عوامی مینیڈیٹ پر ڈاکے کی مذ مت کرنے کے لئے کینیڈا میں ایم پیز کو ملنے اپنے پوائنٹ آف وویوز سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے، جہاں ہم ای میلز، کرکے یہاں کے لوکل ممبرز آف پارلیمنٹ کو اپنے مدعے سے آگاہ کرنے کی کوششوں میں لگے ہو ئے ہیں وہاں ہماری ہی پاکستانی بہن جا کر ڈاکو حکومت کے ہاتھوں ایوارڈ وصول کرکے ہمیں پشت دکھا تی نظر آتی ہیں۔۔
میں ان لوگوں پر بھی حیران ہو ں جو سب رجیم چینچ کو سمجھ رہے ہیں، جو احتجاج کر رہے ہیں جو ساتھ مل کر آواز اٹھا رہے ہیں وہ بھی اس ایوارڈ پر مبارکبادیں دے رہے ہیں۔ تو کیا اپنے ذاتی تعلقات اور ذاتی مفاد ہی اہم ہیں؟ کہاں گئیں وہ اخلاقی جراتیں اور قومی وسیع تر مفاد۔۔ اگر یہی سب کچھ کر نا ہے تو پاکستان کے نظام کو، جبر اور فسطائیت کو رسمی برا بھلا ہی کیوں کہنا۔
کینیڈئن پاکستانی کمیونٹی کو اس حکومت کے ہاتھوں آپ کی ایم پی کو سرکاری تمغہ ملنے پر ڈھیروں مبارکباد کہ آپ نے ارشد شریف، ضل شاہ کی شہادتوں، عورتوں کی بے حرمتیوں، بے گناہ قیدیوں پر تشدد، آپ کے بچوں کی خاطر ڈٹ جانے والے لیڈر کی تذلیل، اس پر قاتلانہ حملے، اس کی قید، سب کو ہنسی خوشی تسلیم کر لیا ہے۔ مبارک ہو۔۔ اس پر فکر نہیں اب فخر کریں کہ پاکستان ایسے ہی چلے گا۔۔
ساؤتھ ایشیائی امور کے معاون وزیرِ خارجہ ڈونلڈ لو کی امریکی کانگریس میں پاکستان کے معاملے میں پہلی دفعہ پیشی، اہم تاریخی واقعہ ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ یہ ان پاکستانی امریکیوں کی کوششوں کا نتیجہ تھا جو پاکستان میں فسطائیت، نا انصافی، بدترین انسانی حقوق کی پامالی، عورتوں اور بچوں پر ریاست ہی کے ہاتھوں ظلم اور جبر کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔ بقول معید پیرزادہ۔
"امریکہ میں ایسا ہونا، پاکستانی امریکن کمیونٹی کی گہری نیند سے جاگ جانے کی نشانی ہے۔۔ " وہاں دس پندرہ کانگرس مین نے حصہ لیا لیکن ان میں سے صرف دو کانگریس مین ایسے تھے جنہوں نے بالکل نپے تلے سوالات کرکے ڈونلڈ لو کو باندھ کے رکھ دیا تھا اور اسی پریشر میں ڈونلڈ لو کو تسلیم کر نا پڑا کہ پاکستان میں الیکشن دھاندلی شدہ تھے۔
پاکستانی امریکن کمیونٹی، گزشتہ پچاس سال سے پاکستانی ایمبیسی اور مقامی سیاستدانوں کے ہاتھوں بے وقوف بنتے رہے ہیں۔ اگر دو کانگریس مین ٹیکساس سے جن کا تعلق تھا، اگر وہ یہ سب کر سکتے تھے تو باقی لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ان کے کانگریس مین ان کی سپورٹ، فنڈ ریزنگ اور بر یفیننگ کے باوجود اندر جا کر صرف وقت ہی کیوں ضائع کرتے رہے۔۔ تو سوچئیے، ڈرائنگ روم میں فخریہ ڈسپلے کرنے کے لئے صرف اپنے بچوں کی ان کے ساتھ تصویریں ہی نہیں بنوانی اپنا موقف بھی واضح کرنا ہے۔۔ لاکھ لاکھ ڈالرز ریز کرکے صرف تصویر اتروا کر کام پورا نہیں ہوتا۔ اپنا سیاسی نظریہ سامنے رکھنا ہوتا ہے۔ پاکستانی امریکن کمیونٹی کا اب اپنا ایک ایجنڈا ہے۔ وہ صرف عمران خان یا تحریک انصاف نہیں بلکہ پاکستانی شناخت ہے۔۔ ایک شناخت، ایک ضمیر۔۔ "
مختصر یہ کہ اس وقت پاکستانی کمیونٹی دنیا میں جہاں جہاں بھی آباد ہے وہاں وہاں سے یہ آواز اٹھنی چاہیئے کہ جو کچھ ان دو سالوں میں پاکستان میں جبر، فسطائیت، خواتین، بزرگوں کی بے حرمتی، بچوں کو ہراساں کرنا، ہوا ہے اور ابھی بھی جاری ہے۔ وہ بے شرمی اور ڈھٹائی ہے اور بالکل ناقابلِ قبول ہے۔ فل سٹاپ۔