Leaked Videos Ka Chalan
لیکڈ ویڈیوز کا چلن
پاکستان میں سیاستدانوں کو رام کرنے کے لیے "صاحب لوگ" ہمیشہ سے لیکڈ ویڈیوز کا سہارا لیتے آئے ہیں۔ لیکن اک طرف عمران خان نے سیاستدانوں پہ احسان کرتے ہوئے قوم کو احساس دلوا دیا کہ یہ نان ایشو ہے تو دوسرا ڈیپ فیک جیسی ٹیکنالوجی نے ایسی ویڈیوز کو مشکوک بنا دیا ہے اب جس کی ویڈیو لیک ہو وہ ڈیپ فیک کا کہہ کر جان چھڑا لیتا ہے۔ پاکستان میں کردار کو لے کر سکینڈلز کی تاریخ ہے ترانہ سے قومی ترانہ نور جہاں طاہرہ سید حتیٰ کہ بھارتی اداکاراؤں تک کا نام لیا جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی نے ترقی کی تو اس معاملے میں بھی ترقی ہوئی تحریر سے تصاویر تک اور تصاویر سے آڈیو ویڈیو تک کا سفر طے کیا جا چکا ہے۔
نیب چئیرمین کی ویڈیو آتی ہے وہ بدستور عہدے پہ براجمان رہتے ہیں جبکہ جج ارشد ملک مرحوم کو عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ زبیر عمر کی ویڈیو آتی ہے پتا بھی نہیں ہلتا علی گیلانی کی مبینہ ہارس ٹریڈنگ والی ویڈیو پہ الیکشن کمیشن پرچہ درج کرا دیتا ہے۔
جنرل ضیا نے آرٹیکل 62-63 متعارف کرا کے لوگوں کے ایمان جانچنے کی جو روایت شروع کی افتخار چوہدری دور میں اس کا خوب استعمال ہوا جج صاحبان امیدواروں سے دعائے قنوت اور کلمے سنتے رہے۔ جس کے لیے حکم آیا اسے نہ صادق سمجھا گیا نہ امین اور جو لاڈلا ٹھہرا وہ ثبوتوں کے باجود صادق اور امین رہا۔
اک بحث یہ بھی ہے کہ کیا ذاتی زندگی کو علیحدہ نہیں رکھا جا سکتا۔ میں جب کسی کے ذاتی معاملے پہ بات کرنے لگتا ہوں تو گناہ گار بندہ ہوں اپنے گریبان میں جھانک لیتا ہوں۔ اللہ پاک نے ہم سب کے نجانے کتنے عیبوں پہ پردہ ڈال رکھا ہے۔ ہمارے علما کے نزدیک سب کچھ فحاشی کا نتیجہ ہے بڑی سے بڑی آفت عورتوں کے دوپٹہ اتارنے کے سبب آتی ہیں اور جھوٹ بولنا غیبت کرنا ناپ تول میں کمی کرنا ملاوٹ کرنا رشوت لینا سمیت کئی گناہ کبیرہ صرف نظر کرکے ساری تبلیغ زناکاری کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ جنسی گھٹن ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چھوٹے بچے تک محفوظ نہیں۔ کامران قمر پولیس میں ہیں وہ کہتے ہیں کہ دوران ملازمت انہیں سیکس کو لے کر ایسے ایسے معاملات سے واسطہ پڑتا ہے کہ بتا بھی نہیں سکتے کہ لوگوں میں جو جھجھک ہے وہ ختم ہو جائے گی۔
پورن دیکھنے میں ہم چند کروڑ پاکستانیوں نے اربوں آبادی والے ممالک کو پیچھے چھوڑا ہوا ہے۔ کوئی ٹوٹا لیک ہو کیا معزز کیا لفنگے سب لنک مانگتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے لیڈران بھی اسی معاشرے کے فرد ہیں اس لیے ان کو بھی وہی سپیس دیں جو ہم اپنے لیے مانگتے ہیں مگر اک دلیل یہ بھی ہے کہ پبلک فگر ہونے کا مطلب ہے کہ آپ کا سب کچھ ڈسکس ہوگا۔ پوری دنیا میں لیڈران کی ذاتی زندگی کو تنقیدی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ جس کو ملک و قوم کی قسمت کا فیصلہ سونپا جا رہا ہے وہ اپنے گھر میں کیسا ہے اپنے خاندان کے لیے کیسا ہے۔
میرے نزدیک ہر پبلک فگر کو تب تک سپیس دینی چاہیے جب تک اس کا ذاتی معاملہ عوام الناس پہ اثرانداز نہ ہو۔
آپ اک منٹ کے لیے سیاسی عصبیت کو اٹھا کر اک طرف رکھ دیں اور سوچیں کیا ن لیگ نے کردار کشی نہیں کی ہوئی بی بی کے لیے کیا کچھ نہیں کہا گیا کیا کیا الزامات نہیں لگائے گئے۔ جب ن لیگ پہ وقت آیا تو وہ کیسے دہائیاں دیتے رہے کہ ہماری منظم کردار کشی ہو رہی ہے۔ اسی طرح مریم نواز قطری شہزادے زبیر عمر کی ویڈیو سمیت کتنے ہی سکینڈلز پہ انصافی دوست بغلیں بجاتے رہے انہی انصافیوں نے بلاول کے لیے کیا کچھ نہیں کہا۔ پھر جب خان صاحب کی آڈیوز لیک ہوتی ہیں اس بار لیگی پڑھ چڑھ کر اس آڈیوز کو اچھالتے ہیں اور انصافی ڈیپ فیک ٹیکنالوجی، جھوٹی ہے فیک ہے کا راگ الاپتے ہیں۔
ویسے چند دن قبل یوٹیوبر سعدالرحمان عرف ڈکی بھائی کی بیوی کی ڈیپ فیک ویڈیو وائرل ہوئی ہے اور ڈکی بھائی نے اس ویڈیو کا بریک ڈاؤن کرکے ثابت کیا کہ یہ ویڈیو جعلی اور ڈیپ فیک سے بنی ہوئی تھی گویا ڈیپ فیک ٹیکنالوجی ابھی اتنی ترقی نہیں کر چکی کہ ویسی ویڈیو پہچانی نہ جا سکے۔ ویڈیو خود ہی اس کے اصل یا نقل ہونے کی گواہی دے دیتی ہے لیکن پھر بھی جس طرح ویڈیوز بنانا آسان ہو چکا ہے۔ یہ الارمنگ سچوئشن ہے۔ ایسی ویڈیوز کسی کی بھی زندگی تباہ کر سکتی ہیں تو خدارا ایسی ویڈیوز بنانے سے اجتناب کریں چاہے آپ کسی سے کتنا بھی خار کیوں نہ کھاتے ہوں۔
جہاں تک بات ہے پرسنل سپیس کی تو اک ایسا لیڈر جو ریاست مدینہ کی بات کرتا ہو ہر وقت تسبیح گھماتا ہو ایاک نعبدو سے تقریر کا آغاز کرتا ہو امر بالمعروف نامی جلسے رکھتا ہو ایسے لیڈر کی اگر ذاتی زندگی کو پرت در پرت کھولیں تو اک سو اک معاملات ہیں جن پہ گرفت کی جا سکتی ہے۔
خدارا مذہب کو اللہ اور اس کے بندے کا معاملہ رہنے دیں اپنے مفاد کے لیے میرے دین کو استعمال کرنا بند کریں۔ ورنہ کم از کم کردار ہی ویسا بنا لیں کہ امتی ہونے پہ شرمندگی ہونے کی بجائے فخر محسوس ہو سکے۔ یعنی ایاک نعبدو کے بعد ٹھمکے مت لگائیں۔
مراکش، ترکی، یو اے ای، ایران یہ مسلم ممالک ہیں یہاں جنسی اخلاط کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ ریاست کسی کو دعوت گناہ نہیں دیتی مگر لٹھ لے کر پیچھے بھی نہیں پڑتی۔ سیکس اک فطری تقاضا جسمانی ضرورت ہے یہ سادہ سا پیداواری عمل ہے جو نسل بڑھانے کے لیے ہر جانور کرتا ہے۔ جتنا آپ اس کو پراسرار پیچیدہ اور مشکل بنائیں گے اتنا ہی تجسس پیدا ہوگا اور جنسی ہراسانی بڑھے گی۔
صرف سیکس ہی جملہ مسائیل کی جڑ نہیں اور بہت سے کبیرہ صغیرہ گناہ ہیں جن سے معاشرے میں بگاڑ ہے تھوڑا اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔