Kya Dr. Qadeer Khan Ne Atomi Raaz Baiche
کیا ڈاکٹر قدیر خان نے ایٹمی راز بیچے
ستمبر 2003 کی بات ہے صدر جنرل پرویز مشرف نیویارک میں تھے۔ ان سے ملنے امریکی خفیہ ادارے کے ڈائریکٹر جارج ٹینٹ آئے اور رسمی گفتگو کے بعد انہوں نے بیگ سے کاغذات نکال کر میز پہ دھر دیے۔ یہ کاغذات نہیں بم شیل تھے۔ پرویز مشرف ان کاغذات کو دیکھ کر سکتے میں آ گئے۔
اس واقعے کو یہیں روک کر ذرا پیچھے چلتے ہیں۔ جب ہمارے دو ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر سلطان بشیر اور چوہدری عبدالمجید افغانستان میں اک غیر سرکاری تنظیم امہ تعمیر نو کے بانیوں کی حیثیت سے گئے اور القاعدہ چیف اسامہ بن لادن اور ایمن الزواہری سے ملاقاتیں کرتے رہے تھے۔
جارج ٹینیٹ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ان کو اک یورپی ملک نے یہ خبر دی کہ یہ پاکستانی سائنسدان ایٹمی ٹیکنالوجی القاعدہ کو دینا چاہ رہے ہیں۔ امریکہ نے پاکستان سے رابطہ کیا اور وہ ثبوت پاکستان کو دکھائے جن میں بائیولوجیکل ویپن کی تفصیلات تھیں جو ڈاکٹر سلطان کی افغانستان رہائش گاہ سے اکٹھے کیے گئے تھے۔
ان دونوں سائنسدانوں سے تفتیش کی گئی تو انہوں نے تمام باتیں مان لیں پاکستانی صحافی کامران خان نے واشنگٹن پوسٹ میں اس تفتیش کی تفصیل لکھی کہ کیسے ان سائنسدانوں نے اقرار کیا کہ ہم نے اسامہ سے ملاقاتیں کیں اور ایٹمی ہتھیار بنانے کا پلان بنایا ہے حتیٰ کہ القاعدہ کے لیے ایٹمی ہتھیار کے لیے رف ڈرائینگ بھی بنائی تھی۔
پاکستان نے امریکی دباؤ کے باوجود ان سائنسدانوں کو سزا دینے کی بجائے نظر بند کر دیا۔ امریکہ اس پہ جز بز تھا اس نے اخبارات میں سٹوری لیکس کرا کے دباؤ بڑھایا مگر پاکستان نے یہ سب جھیلا مگر ان سائنسدانوں کا ٹرائیل نہیں کیا۔
امریکہ اس وقت ایٹمی پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہا تھا اور جن ملکوں پہ ایٹمی ٹیکنالوجی پہ کام کرنے کا الزام تھا وہاں ایٹمی ٹیکنالوجی پھیلانے کے پیچھے پاکستانی سائنسدانوں کا نام لیا جا رہا تھا امریکہ تو ایٹمی پھیلاؤ کی ان کہانیوں کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے جوڑ رہے تھے۔ شجاع نواز نے اپنی کتاب کراسڈ سورڈز میں لکھا جب نواز شریف وزیر اعظم تھے تب ان کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے بتایا کہ ڈاکٹر قدیر جائیدادیں بنا رہے ہیں کیونکہ وہ ایٹمی ڈاکومینٹس بیچ رہے ہیں اس کے لیے انہوں 23 جائیدادوں کی تفصیلات بھی بتائیں۔ جنرل اسد درانی کہتے ہیں کہ ان کو اک گیراج مین نے بتایا کہ ڈاکٹر قدیر خان کا مشن خفیہ ہے لیکن وہ ہر ملنے والوں کو کھل کر ہر چیز تفصیل سے بتاتے ہیں۔ جنرل جاوید ناصر اور اسد درانی کے بعد پرویز مشرف کو بھی اک خبر ملی۔
1999 میں شمالی کوریا کے میزائیل ایکسپرٹس پاکستان آئے ہوئے تھے جن میں نیوکلئیر ایکسپرٹ بھی شامل تھے جنہیں ڈاکٹر قدیر خان نے بریفنگ دی اور کہوٹہ ریسرچ فیکٹری کے دورے بھی کرائے۔
جنرل مشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس معاملے پہ میں نے ڈاکٹر قدیر سے ملاقات کی اور اس بابت پوچھا تو ڈاکٹر قدیر نے انکار کر دیا۔
صدر بننے کے بعد پرویز مشرف نے ڈاکٹر قدیر خان کی آل ان آل پوزیشن ختم کرکے اک کمیٹی بنا دی۔ لیکن اطلاعات آنا پھر بھی نہیں رکیں۔ 30 مارچ 2001 کو جب ڈاکٹر قدیر خان کو ریٹائر کیا گیا تو عوام غصے میں آ گئی۔ ریٹائر ہونے کے بعد بھی ڈاکٹر خان دبئی برانچ سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے رہے۔
2003 میں جب جارج ٹینٹ ملاقات کے لیے آئے اور کاغذات نکال کر سامنے رکھے تو مشرف سکتے میں آ گئے۔ جارج ٹینٹ نے کہا کہ ڈاکٹر خان نے پاکستان سے دھوکہ کیا ہے یہ ڈرائینگز اسلام آباد میں محفوظ ہونی چاہیے تھی لیکن یہ پاکستانی پروگرام کی ڈرائنگز ہیں جو ایران اور لیبیا کو بیچی گئیں۔ ان ڈرائینگز پہ پاکستانی سائنسدانوں کے دستخط تک موجود تھے۔
اگست 2002 میں ایران کی دو خفیہ سائٹس کا راز کھل گیا یہ راز ایران کی جلاوطن اپوزیشن نے ہی کھولا تھا۔ دنیا میں ایٹمی ٹیکنالوجی سے ڈیل کرنے والے ادارے نے ان لیکس پہ ایکشن شروع کر دیا۔ اس ادارے نے ایران سے ان سائٹس کا انسپکشن کرنے کا مطالبہ کر دیا کہ آیا ایران یہ ہتھیار بنانے کے لیے کر رہا ہے یا پھر پرامن مقاصد کے لیے۔ طویل مذاکرات کے بعد 2003 میں جب اس ادارے کے ارکان خفیہ سائٹس پہ پہنچے تو وہ ایرانی سینٹری فیوج کا ڈیزائیں دیکھ کر پہچان گئے کہ یہ وہی ڈیزائین ہے جو ڈاکٹر قدیر خان ہالینڈ سے لائے تھے۔ کیونکہ ان ارکان میں ڈاکٹر عبدالقدیر کے ہالینڈ کے اک سابق کولیگ بھی شامل تھے۔
جب ایران سے پوچھا گیا کہ آپ نے یہ مکمل اور بہترین ڈیزائین کیسے بنائے تو انہوں نے کہا کہ ان معلومات کی مدد سے جو پہلے سے پبلک ہیں یعنی کتابوں اور انٹرنیٹ کی مدد سے۔ آگے ایٹمی ٹیکنالوجی کے طلبا نہیں ماہرین تھے ان کو بے وقوف بنانا آسان کام نہیں تھا۔
جب انہوں نے فرانزک کیا تو وہاں ایسی کوئی فیسیلٹی ہی نہیں تھی جہاں یہ ماڈل تیار کیے گئے ہوں استفسار پہ ایرانیوں نے تنگ آ کر کہا کہ ہم نے یہ بیرونی ذرائع سے حاصل کیے ہیں۔
یہ کہانی مشرف تک پہنچائی گئی مشرف ان شکوک کو اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے۔ اس واقعے کے کچھ عرصے بعد دبئی سے اک جہاز کا واقعہ سامنے آیا۔
2003 کے موسم سرما کا آغاز تھا ملائشیا کی اک فیکٹری میں خفیہ طور پہ بہت سے یورینیم انرچ کرنے والے سینٹری فیوجز تیار ہوئے۔ انہیں کنٹینرز میں چھپا کر پہلے دبئی لایا گیا پھر اک تجارتی بحری جہاز بی بی سی چائنہ پہ لوڈ کرا کے لیبیا روانہ کیا جانے والا تھا۔ اس سب کے انتظامات اک سری لنکن بزنس مین بی ایس طاہر کر رہے تھے۔ حسن عباس کی کتاب پاکستان نیوکلئیر بم کے مطابق بی ایس طاہر ڈاکٹر عبدالقدیر کے قریبی ساتھی تھے۔
انہوں نے ہی ملائشیا کی سکومی انجینئرنگ سے یہ ہزاروں پرزہ جات تیار کرائے تھے۔ یہ کمپنی مڈل ایسٹ کے ممالک کے لیے آئل کمپونینٹس بناتی تھی لیکن ساتھ خفیہ طور پہ ایسے پرزہ جات بھی بناتی تھی۔ سکومی میں برطانوی خفیہ ایجنسی کا اک ڈبل ایجنٹ تھا۔ اس نے یہ اطلاع لیک کر دی کہ بی بی سی چائنہ کا وہ جہاز جو دبئی سے لیبیا جا رہا ہے اس میں فلاں کنٹینر نمبر میں سینٹری فیوجز ہیں۔ یہ مخبری جب برطانوی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں تک پہنچی اس وقت تک جہاز بندرگاہ چھوڑ چکا تھا۔
ان ممالک نے اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے جہاز کو روکنے کی کوششیں شروع کر دیں مگر کامیابی نہ مل سکی آخر کار جب یہ جہاز لیبیا پہنچنے ہی والا تھا کہ جہاز کے مالک کی طرف سے اس کا رخ موڑنے کا حکم ملا اور جہاز اٹلی کی تارنتو بندرگاہ پہ لنگر انداز ہوگیا۔ 4 نومبر 2003 کو جہاز کی تلاشی شروع ہوئی۔ ایم آئی سکس اور سی آئی اے کو دو گھنٹے ملے تھے لیکن چونکہ ان کے پاس کنٹینر نمبرز موجود تھے اس لیے یہ سیدھا وہیں پہنچے اور سینٹری فیوجز پکڑ لیے۔
شپمنٹ پکڑے جانے کے بعد لیبیا کا ایٹمی پروگرام رول بیک کر دیا گیا۔ جب لیبیا نے اپنی سائٹس کھولیں تو اس کی صفائی اور تلاشی کے دوران وہاں اک اسلام آباد کے اک ٹیلر کا شاپنگ بیگ ملا جہاں سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کپڑے سلواتے تھے اس بیگ میں نیوکلئیر ویپن کے ڈیزائین موجود تھے۔ ایران اور لیبیا کے ساتھ شمالی کوریا سے بھی ثبوت مل چکے تھے۔
آئی ایس آئی نے ڈاکٹر خان کے دو خط بھی پکڑے تھے جس میں وہ ایران کو مشورہ دے رہے تھے کہ انسپکشن کے دوران ان کا نام نہ لیا ائے بلکہ ان کا نام لیا جائے جو مر چکے ہیں۔
ان ثبوتوں کے بعد پاکستانی ریاست پہ ڈاکٹر قدیر خان کی حوالگی کا دباؤ بڑھنے لگا لیکن پاکستان نے اپنے محسن کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر قدیر تب 12 صفحات کے اک اقرار نامے پہ دستخط کر چکے تھے کہ تین جرمن اور اک سری لنکن کاروباریوں کے ساتھ چند انڈین بھی شمالی کوریا ایران اور لیبیا کو بیچے جانے والے ڈیزائین کی اس ڈیل میں شامل تھے۔
مشرف کے بقول ڈاکٹر قدیر خان نے پرویز مشرف سے ملاقات میں ندامت کا اظہار کیا اور سرکاری معافی کا مطالبہ کیا جس پہ مشرف نے انہیں عوام سے معافی مانگنے کا کہا۔ ڈاکٹر قدیر خان کہتے ہیں کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے کر معافی منگوائی گئی۔ امریکی مطالبے پہ ڈاکٹر صاحب نے انگریزی میں معافی نامہ مانگنا تھی اور پرومپٹر پہ معافی مانگتے مانگتے ڈاکٹر قدیر نے پرومپٹر چھوڑ کر لکھا ہوا پڑھنا شروع کر دیا تا کہ تاثر جائے کہ انہیں سکرپٹ لکھ کر دیا گیا تھا اور انہیں زبردستی پڑھوایا گیا۔
اس معافی کے بعد مشرف نے انہیں ٹرائیل سے معافی دے کر ان کی جان بخشی کرائی۔ جب عوام کو لگ رہا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکہ کے حوالے کر دیا جائے گا تب مشرف نے پرہجوم پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ ڈاکٹر خان اور دنیا کے درمیان میں کھڑے ہیں۔ پرویز مشرف نے کہا کہ ایٹمی ٹیکنالوجی سب نے کہیں نہ کہیں سے چوری کی ہے اس لیے کسی اک پہ چوری کا الزام نہیں دھرا جانا چاہیے۔ جرمنی نے یہ سب شروع کیا جہاں سے امریکہ نے چرایا وہاں سے سوویت یونین نے چرایا اور اسی طرح یہ ٹیکنالوجی پھیلی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اب اللہ کے ہاں پیش ہو چکے ہیں اب معاملہ ان کے اور ان کے خدا کے درمیان ہے۔ یہ تحریر ریکارڈ کی درستگی کے لیے لکھی گئی ہے اس سب مواد کو اکٹھا کرنے اور ترتیب سے پیش کرنے کے پیچھے فیصل وڑائچ صاحب کی محنت کارفرما ہے۔