Uran Tashtari
اڑن طشتری
رات کا آخری پہر چل رہا تھا۔ ایک تیز نیلی اور سرخ روشنیوں والی اڑن طشتری خلاء سے لاہور کی (آلودہ) فضا میں اتر رہی تھی۔ اڑن طشتری کے کاک پٹ میں دو دبلے پتلے جسموں اور بڑے سر والے ایلینز بیٹھے تھے۔ جن کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں ہیروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ ان میں سے ایک کا نام وی 13 تھا جبکہ دوسرے کا ایچ 25۔
نام: ڈاکٹر عاصم اللہ بخش۔
عمر: 54 سال۔
شعبہ: طب۔
ذریعہ معاش: کاروبار۔
وجہ شہرت: سیانی باتیں کرنا۔
وی 13 نے اپنے پاس موجود لسٹ سے اپنے اگلے شکار کا نام پڑھا۔ پھر ابرو اٹھا کر بڑبڑایا۔
آ تے گئے آں، پر لگدا اے پھیرا ای پیا اے۔
ڈاکٹر صاحب کے گھر کی لوکیشن پہلے ہی یو ایف او کے میپ میں ایڈ تھی اس لیے اڑن طشتری سیدھی گھر کی چھت پر جا اتری۔ پائلٹ ایلین نے اپنی مشین کا انجن اور لائیٹس بند کیں۔ یوں وہ دونوں خراماں خراماں سیڑھیاں اترنے لگے۔ غیر متوقع طور پر ڈاکٹر صاحب ابھی جاگ رہے تھے۔ آرام دہ کرتے پاجامہ میں ملبوس، نظر کی آنکھ لگائے وہ اپنے سٹڈی روم میں ٹیبل لیمپ جلائے کسی کتاب کے مطالعہ میں مشغول تھے۔
اپنی حفاظتی شیڈ آن کر لو ورنہ لاہور کی سموگ تم لوگوں کی جلد پر خراشیں ڈال دے گی۔
انہوں نے کتاب سے سر اٹھا کر ایک نظر انہیں دیکھا اور نصحیت کی۔
دونوں ایلین حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گے۔
ڈاکٹر صاحب نے انہیں، اپنے سامنے موجود صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور جب وہ بیٹھ چکے تو ان سے تشریف آوری کا مقصد دریافت کیا۔
کیا ہماری ہیت اور آمد نے آپ کو پریشان نہیں کیا؟
وی نے پوچھا۔
نہیں، ہم مہمانوں کو خدا کی رحمت سمجھتے ہیں۔
مہمانوں اور گھس پیٹیوں میں فرق ہوتا ہے میرے تقریباً بوڑھے دوست۔
ایچ نے اپنی کھرکھراتی سی آواز میں کہا۔
ہم در اندازوں کو بھی چائے پلائے بغیر جانے نہیں دیتے۔
ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر اٹھتے ہوئے کہا۔
آپ کہاں جا رہے ہیں؟
تم لوگوں کی خاطر مدارت کا کچھ سامان کرنے کو۔
نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ ہمارے معدے تم لوگوں کی دنیا کی اشیاء خورد و نوش کو ہضم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
میں جانتا ہوں۔ بس مجھے چند منٹ دے دیجے۔
ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر کہا۔
"یہ شخص کوئی گڑبڑ نہ کر دے؟"
وی نے ایچ سے کہا اس کے لہجے میں تشویش تھی۔
ہاں اس کا رویہ بہت پراسرار ہے ورنہ اس دنیا کے لوگ ہمیں دیکھ کر ہی حیرت اور خوف سے بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ چلو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر صاحب ایک ٹرے کے ساتھ دوبارہ حاضر ہوئے جس میں چینی مٹی کے پیالے میں سوپ نما کوئی چیز تھی۔ پورے کمرے میں ایک عجیب سی مہک پھیل گئی۔ دونوں ایلینز نے پیالوں کو حیرت سے دیکھا پھر انہیں سونگھا اور ندیدے پن سے اسے چمچ سے پینے لگے۔ ان کا انداز ایسا تھا جیسے انہوں نے زندگی میں پہلی دفعہ ان کی من پسند چیز اتنی وافر مقدار میں ملی ہو۔
اس مشروم کی کاشت اس دنیا میں آسان نہیں تھی لیکن کچھ تجربات کے بعد ہم اسے زمین پر اگانے میں کامیاب رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے انہیں بتایا۔
لیکن یہ کششوششی نامی بوٹی تو ہمارے سیارے پر بھی بہت نایاب ہے یہ آپ کے ہاتھ کہاں سے لگی؟
وی نے سوپ ختم کر کے زبان سے پیالہ چاٹتے ہوئے پوچھا۔
جس طرح تم لوگ آئے ہو اس طرح یہ مشروم بھی کسی طریقے سے ہم تک پہنچ گیا تھا۔ اب اپنی آمد کا مقصد بتاو؟
ڈاکٹر صاحب نے پوچھا۔
ہم آپ کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئے ہیں۔
کیوں؟
آپ کی دنیا میں موجود ہمارے برین امپورٹ سیل نے تجویز کیا ہے کہ آپ کی ذات ہماری آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اہم ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے آپ کو چھوٹے بچوں کے تعلیمی نصاب مرتب کرنے والے ادارے کا مشیر بنا دیا جائے۔
لیکن میں اپنی دنیا اور اپنے لوگوں میں بہت خوش ہوں میں کہیں نہیں جانا چاہتا۔
ڈاکٹر صاحب نے نرمی سے کہا۔
شاید آپ کی پسند اور اجازت اہمیت نہیں رکھتی۔
وی 13 نے جھجھکتے ہوئے کہا۔ وہ کششوششی کی نمک حرامی پر شرمندہ نظر آتا تھا۔
اچھا، اس بات کو کل دیکھیں گے۔ ابھی رات بہت ہو گئی ہے۔ میں صبح بیدار ہونے پر تمہاری کششوشی کے علاوہ صندمین سے بھی تواضع کروں گا۔
صندمین ایک ایسا مشروب تھا جو مریخ پر صرف بادشاہوں کے لیے مخصوص تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کو پینے سے جسم میں جادوئی شکتیاں پیدا ہوتی ہیں اس لیے صندمین کا نام سنتے ہی دونوں ایلین پگھل کر رہ گئے۔
چلو میں تمہیں تمہاری آرام گاہ دکھاتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے سٹڈی روم سے نکلتے ہوئے کہا۔
وہ دیکھو۔ نیچے؟
ایچ 25 نے وی 13 کا بازو تھام کا سنسنی خیز انداز میں کہا۔
وی نے نیچے لان میں دیکھا تو اسے اپنی طرح کا ایک ایلین لان کی گھاس کاٹتا نظر آیا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔
زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں جس شخص کے پاس کششوشی اور صندمین جیسے خزانے ہوں بلاشبہ وہ اس چیز پر قادر ہے کہ ایلینز کی پوری فوج کو اپنا غلام بنا لے۔
وی نے متانت سے اپنا بڑا سا سر ہلایا۔
بے وقوف، اس کے کندھے کی پٹیاں دیکھو۔ نارنجی اور ازرقی۔ یہ ہماری دشمن سپر پاور کا باشندہ ہے۔
ایچ کی بات سن کر وی نے آنکھیں پھیلا کر بڑی جانفشانی سے گھاس کاٹتے پستہ قد ایلین کو دیکھا اور پھر گالی دے کر بولا کہ یہ یہاں کیا کر رہا ہے؟
وہی جو ہم کرنے آئیں ہیں۔
ایچ 25 نے پر سوچ انداز میں کہا۔
اب سمجھ آیا کہ ڈاکٹر کے ہاتھ کششوششی اور صدمین کیسے لگیں اور پھر اس نے اسی زمین پر انہیں اگانے کا جگاڑ لگا لیا۔
یعنی ہم بھی کششوششی اور صدمین کے لالچ میں غلام بن جائیں گے؟
نہیں، ایسا نہیں ہو گا۔ ہم صبح ڈاکٹر کو ساتھ لے کر ہی جائیں گے، اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو ہم یہاں دوست بن کر رہیں گے غلام نہیں۔
وی نے آنکھیں چرائیں۔
تہہ خانے میں بنی خفیہ آرام گاہ میں انہوں نے دشمن سپر پاور سلطونیا کا ایک اور باشندہ دیکھا جو بڑے خشوع و خضوع سے نماز پڑھ رہا تھا۔ حالانکہ وہ مریخ میں بطخ کی پوجا کرتے تھے۔ نماز پڑھ کر اس نے وی اور ایچ کو بڑی ترتیل سے سلام کیا۔
اس کی بات کا جواب نہ دو یہ ہمارا دشمن ہے۔
ایچ نے غصے سے کہا۔
میں کسی کا دشمن نہیں ہوں بھائی، صرف اللہ کا بندہ ہوں۔
سلطونیا کے باشندے نے عاجزی سے تسبیح پھرولتے ہوئے کہا ورنہ ان کا غرور اور بدتمیزی پورے مریخ میں مشہور تھی۔ اس کے ساتھ ہی اندرونی کمرے سے دو مزید ایلینز نمودار ہوئے ان کے کندھے کی قرمزی اور آحمری پٹیاں بتا رہیں تھی کہ وہ مریخ کی ابھرتی ہوئی تیسری سوپر پاور سائنہ کے باشندے ہیں اور غالباً اسی مشن پر آئے تھے۔ انہوں نے ہاتھوں میں کیک تھام رکھا تھا۔ وی کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ آج ڈاکٹر صاحب کی سالگرہ ہے اور یہ کیک انہوں نے اپنے ہاتھ سے ان کے لیے بنایا ہے۔
خدا ڈاکٹر صاحب کو صحت و تندرستی عافیت والی لمبی عمر عطا کرے۔
ایچ نے اپنے اوپر کمبل کھینچتے ہوئے نیم خوابیدہ لہجے میں کہا۔ وہ بہت تھک گیا تھا اور عین ممکن تھا کہ صبح ناشتے کے بعد ڈاکٹر صاحب اسے اپنی گاڑی دھونے یا اس جیسے کسی اور کام پر لگا دیتے اس لیے وہ بر وقت سو جانا چاہتا تھا تا کہ کہیں ایسا نہ ہو اس کی سستی کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب ناراض ہو کر اسے واپس جانے کا حکم صادر کر دیں۔