Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Rehan Asghar Syed/
  4. Tik Tokers

Tik Tokers

ٹک ٹاکرز

ایک ٹک ٹاکر خاتون کے بارے میں خبر ہے کہ انہوں نے اپنی ویڈیو ریکارڈ کرنے کے لیے جنگل میں خود آگ لگائی۔ عوام الناس میں اس بات کو لے کر شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق آگ لگا کر ویڈیو بنانے کا اس وقت ٹرینڈ چل رہا ہے اور اسلام آباد، ایبٹ آباد سمیت کئی علاقوں میں ایسے متعدد واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ غالباََ پچھلے سال ایمزون کے جنگلات میں بھی چند مقامی افراد کی جانب سے آگ لگائی گئی تھی تو ذمہ داران کو پکڑ کر ان میں سے چند کو سزا سنائی گئی۔

سزا و جزا دھرتی ماں کی ذمہ داری ہے لہٰذا ہم یہ ذمہ داری بھی اس پر ہی چھوڑتے ہیں اور تھوڑا سا ٹک ٹاکرز پر تبصرہ کیے دیتے ہیں۔ نقصان کا جو غم و غصہ ہے وہ تو ہے ہی مگر ہم نے جب یہ ویڈیو دیکھی تو داد دیے بغیر نہ رہ سکے کہ منحوس ٹک ٹاکر خاتون نے نہ صرف بہترین شاٹ ریکارڈ کیا بلکہ ٹک ٹاکرز کی دنیا کے مقابلے ڈریس بھی قدرے معقول پہن رکھا ہے۔

ورنہ ٹاپ پاکستانی خواتین ٹک ٹاکرز کی ویڈیو عموماََ پشت سے شروع ہو کر سینے پر آ کر ختم ہو جاتی ہے۔ چہرہ دکھانے کی نوبت بہت کم آتی ہے۔ ویڈیو دیکھ کر پہلا سوال ذہن میں آتا ہے۔

تا سو څه ښو دل غواړئ؟

یعنی دیکھانا کیا چاہتے ہو؟

اگر کوئی مڈل، لوئر مڈل کلاس ایسا واہیات سین ریکارڈ نہیں کرنا چاہتی تو وہ نسبتاََ بہتر کنٹینٹ پر کام کر رہی ہیں اور وہ بہتر کام کیا ہے؟ مثلاً پارک کے نوکیلے جنگلے کو انتہائی چست پاجامہ پہنے کراس کرنے کی یوں کوشش کرنا کہ ایک ٹانگ زمین پر ہے اور دوسری پانچ فٹ اونچے جنگلے کی برچھی میں پھنسی ہوئی ہے یا گھوڑا بن کر چھوٹے بچے کو پشت پر لادھے جھولا دے رہی ہیں اور یہ سارا سین پچھلی طرف سے ریکارڈ کیا جاتا ہے۔

اسی طرح کے کچھ دیگر تخلیقی آئیڈیاز بھی ہیں جن سے ان کے پراسرار فالورز کی تعداد دنوں میں ساٹھ، ستر لاکھ تک جا پہنچتی ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اپنے قدردانوں کو ان خواتین نے کبھی مایوس نہیں کیا اور دن میں دس بیس نئے تخلیقی آئیڈیاز اور کیمروں کے شعلہ نظر اینگل کے ساتھ آتی ہیں۔ ہم تو شاید ٹک ٹاکرز نامی مخلوق کی یہ تخلیقی کاوشیں دیکھے بغیر ہی دنیا سے گزر جاتے اگر مارک زک برگ ریلز کی آپشن ڈال کر ٹک ٹاک کو عملی طور پر فیس بک پر نہ لے آتا۔

تو بات ہو رہی تھی ٹک ٹاکرز کی، اس میں ان بیچاروں کا کوئی قصور نہیں۔ ملک میں گھٹن اتنی ہے کہ لوگ بیچارے کیا کریں؟ ہمارے سال بعد دو تہوار آتے ہیں ان میں بھی کسی جگہ پر آپ اپنی فیملی کو گھمانے نہیں لے جا سکتے۔ نہ تفریحی مقامات ہیں، نہ ایسے کھیل اور صحت مندانہ ایکٹیوٹیز ہیں کہ لوگ خوش ہو سکیں۔ زندگی انجوائے کر سکیں۔ اب ایسے میں شکر کریں کہ آپ کے بچے ٹک ٹاکرز ہی بنے ہیں۔

یہ فنکار کسی بھی جگہ کھڑے ہو کر ویڈیو بنا لیتے ہیں۔ اپنی جنت بنا رکھی ان لوگوں نے۔ لمحہ لمحہ جیتے، خوشیاں کشید کرتے ہیں۔ کسی کی شادی ہو، فوتگی ہو، ان کو کوئی غرض نہیں یہ وہاں پر بھی اپنی ایک دو ویڈیو بنا ہی لیتے ہیں۔ شادی پر جاتے کھانا کھاتے، دلہا دلہن کی ویڈیو لگا کر کیپشن دیتے ہیں کہ ان کے لیے دعا کریں یہ خوبصورت جوڑی اچانک مر گئی ہے۔ یا اس دلہن نے اپنے اِس ٹک ٹاکر دوست کو چھوڑ کر کسی اور سے شادی کی تو اس پر عذاب آ گیا۔

اگر آج اپنے بچوں کو ٹک ٹاک سے روکیں گے تو کل کو یہ تماش بینی کے لیے خواب فروش مسخروں کے جلسوں میں جمع ہو کر اس ملک کو آگ لگا دیں گے۔ سو شکر بجا لائیں کہ آنکھ بچ گئی ہے مر تو ہر کسی نے ویسے ہی جانا ہے۔

Check Also

Sunen, Aaj Kya Pakaun

By Azhar Hussain Azmi