Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rehan Asghar Syed
  4. Sufaid Hathi

Sufaid Hathi

سفید ہاتھی

میں اور میرے ہمسائے نے سفر کا اکھٹے آغاز کیا۔ میں نے ہاتھی چنا جب کہ اس نے گدھا۔ میں اس کی پسند پر ہنسا۔ ہاتھی ایک شاہی سواری ہے۔ شاندار، قوی ہیکل، طاقتور اور بارعب۔ میں نے اسے بتایا۔ لیکن یہ طویل سفر کے لیے موزوں نہیں۔ اس کا خرچہ اور خوراک بہت زیادہ ہے۔ ہم خود کھائیں گے یا اسے کھلائیں گے؟ یہ سست رفتار بھی ہے۔ گدھے کی طرح محنتی بھی نہیں۔

اس نے جواب دیا۔ لیکن ٹیکا اور رعب تو ہاتھی کا ہی ہوتا ہے۔ اگر تم ہاتھی نہیں لینا چاہتے تو کم سے کم گھوڑا ہی لے لو؟ میں فی الحال گھوڑا افورڈ نہیں کر سکتا۔!اس نے مجھے بتایا۔

نہیں کر سکتے تو میری طرح یورپ امریکہ سے قرض اور گرانٹ لے کر لے لو؟ میں نے نادر اور مفت مشورہ دیا۔

قرضے آپ کی قوت فیصلہ، اختیار اور آزادی کو محدود کرتے ہیں۔ جو قومیں اپنی چادر دیکھ کر پاؤں نہیں پھیلاتیں پھر قرضے دینے والے ساہوکار ان کی ٹانگیں کاٹ کر انہیں معذور بنا لیتے ہیں اور انہیں کٹ پتلیوں کی طرح نچاتے ہیں۔ اس لیے مجھے ادھار کے گھوڑے سے اپنا یہ گدھا زیادہ عزیر ہے۔ جب حالات ہوں گے تو ہم گھوڑے بھی خریدیں گے۔!

اس نے حتمی انداز اور یقین محکم سے کہا۔ میں منہ بنا کر رہ گیا۔

جب امیر چننے کی باری آئی تو اس نے نہرو ٹوپی والا کھدر پوش چنا جب کہ میں نے کڑکڑاتی وردی والا فوجی جرنیل، جس کا سینہ تمغوں سے بھرا ہوا تھا۔

ملازم پیشہ آدمی اپنی نوکری سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔ ڈسپلن کے سانچے میں ڈھلا دماغ نئے راستے تلاش نہیں کر پاتا۔ قیادت کے لیے جو صبر، بلند نگاہی، ظرف، اور ویژن درکار ہوتا ہے وہ ایک عوامی راہنما میں ہی پنپ سکتا ہے۔

اس نے مجھے سمجھایا۔ لیکن جو ٹیکا اور رعب وردی والے میں ہے وہ بغیر وردی والے میں نہیں۔ میں نے حقارت سے اس کا مشورہ مسترد کر دیا۔

یوں ہم روانہ ہو گے۔ جلد ہی ہمارا تیسرا ہمسایہ بھی ہمارے ساتھ آ ملا۔ چھوٹی چھوٹی آنکھوں اور پستہ قامت وہ تیز طرار اور محنتی شخص گھوڑے پر سوار تھا۔ اس نے امیر قافلہ کے لیے ہم سے الگ نظام کو چنا تھا۔ شروع میں میرا ہاتھی چنگاڑتا ہوا بھاگا لیکن جلد ہی وہ ہانپنے لگا۔ تنگ گھاٹیوں سے میرے ہمسایوں کی سواریوں سمٹ کر گزر جاتیں وہاں میرا ہاتھی پھنس جاتا پھر مجھے لمبا چکر کاٹ کے اوپر سے آنا پڑتا۔ یوں رفتہ رفتہ میرے ہمسائے مجھے چھوڑ کر آگے بڑھتے گے اور میں پیچھے رہ گیا۔

میں نے غصے سے فوجی امیر کو معزول کر کے شیروانی والے کو امیر قافلہ بنایا لیکن فوجی امیر کو قیادت کا چسکا پڑ چکا تھا اس کی مسلسل مداخلت اور سازشوں سے شیروانی والا بری طرح ناکام ہو گیا میں پھر وردی والے کو لے آیا اور آخر میں مایوس ہو کے پھر شیروانی والے کو آگے کیا۔ جب کہ میرے ہمسائے تسلسل کے ساتھ اپنے اپنے امیروں اور نظام کے ساتھ آگے بڑھتے گے۔ ان کے گھوڑے اور گدھے آگے مزید گھوڑے اور خچروں کو جنم دے رہے تھے جب کہ میرا ہاتھی مزید سفید ہاتھی پیدا کر رہا تھا۔

واپڈا، پی آئی سٹیل مل، ریلوے جیسے درجنوں سفید ہاتھی قافلے کے سر پر بوجھ تھے۔ جو سفر کی رفتار کو مزید سست کرتے جا رہے تھے۔ آخر ہمارے سامنے ایک سیاہ دلدل آ گئی جس میں سے نکلتے بلبلے ہمیں نگلنے کو تیار دیکھائی دیتے تھے۔ میرے ہمسائے جانے کب سے اور کہاں سے ان دلدلوں کو عبور کر کے اب پکی شاہراہوں پر سرپٹ بھاگ رہے تھے جب کہ میں دلدل کے کنارے پر بیٹھا ہاتھیوں کے قافلے کے ساتھ اسے عبور کرنے کے معجزے کا منتظر تھا۔

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra