Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rehan Asghar Syed
  4. Jhatpata

Jhatpata

جھٹپٹا

جب میں نے آنکھ کھولی تو قافلہ سفر میں تھا۔ اونٹوں کے پاؤں سے بندھی گھنٹیوں کی دھن کسی نوبیاہتا بیوہ کا بین لگ رہی تھی۔ گھوڑوں کے سموں سے اڑتی گرد نے مسافروں کے چہرے پر خاک مل دی تھی۔ چہرے، جو وجیہہ، لیکن بے حال تھےپژمردہ اور نڈھال تھے۔ ہونٹوں پر پپڑی، آنکھوں میں خوف تھا، بالوں میں مٹی اور ہاتھ بے جان تھے۔ ہماری عمر تو سفر میں ہی کٹ گئی۔ منزل اور کتنی دور ہے؟ ایک بوڑھے مسافر نے نقاہت سے پوچھا۔

کچھ ہمراہی یوں چونکے جیسے انہیں ابھی ابھی ہی سفر کی رائیگانی کا احساس ہوا ہو۔ انہوں نے پریشانی سے اپنے جانور روک لیے۔ ہم یقیناً کھو گئے ہیں۔ ایک تجربہ کار سردار نے مدہم آواز میں کہا۔ اس کی آنکھوں میں مایوسی تھی۔ قافلے میں بے چینی اور چہ میگوئیاں بڑھتی جا رہیں تھیں۔ قافلے کی قیادت کرتے امیر کا شاہانہ سہولتوں سے آراستہ بگھیوں کا کارواں بھی روک دیا گیا۔ چپ چاپ آگے بڑھتے رہو۔ منزل قریب ہے۔ میں ٹھنڈے چشموں کی نمی اور زرخیز زمینوں کی خوشبو سونگھ سکتا ہوں۔ بس تھوڑا سفر باقی ہے۔

بیش قیمت شاہانہ لباس میں ملبوس امیر کارواں نے اپنی محل نما بگھی سے نکل کر ناگواری سے کہا۔ وہ یقیناً جھوٹ بول رہا تھا۔ ہر طرف لق و دق صحرا تھا جس میں چلتے لو کے تھپیڑے قافلے والوں کی جان کے پیاسے تھے۔ امیر کارواں جھوٹا ہے۔ اس کا پیٹ نعمتوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے بدن پر قیمتی لباس ہے۔ ان سب پر ہمارا حق ہے۔ اگر منزل چاہتے ہو تو اس سے قیادت چھین کر میرے حوالے کرو، میں ان صحرائی راستوں کا شناور ہوں۔ میں ہی اس ویرانے میں تمہیں منز ل تک پہنچا سکتا ہوں۔

امیر کارواں کے ایک دشمن سردار نے لوگوں کو بھڑکایا۔ لوگ پہلے ہی مشتعل تھے۔ انہوں نے امیر کے شاہانہ کارواں پر حملہ کر دیا۔ مال و دولت لوٹ لیے، قیمتی گھوڑے کھول لیے۔ نفیس پردوں اور قالینوں کا آگ لگا دی۔ قافلے والوں کے وسائل پر عیاشی کرنے اور قوم کی منزل کھوٹی کرنے کے جرم میں امیر کو گرفتار کر کے پابند سلاسل کر دیا گیا۔ باغی سردار نیا امیر بنا تو معلوم ہوا، اس کی سادگی نظر کا دھوکا تھا۔ اس کے وعدے، لفاظی کے پلندے تھے۔

اس کا مقصد قافلے کی بجائے اپنے اہل و عیال کی فلاح تھی۔ قافلے والوں کو اب پرانے امیر کی یاد ستانے لگی۔ یوں قوم کپڑوں کی طرح "امیر کارواں " بدلتی رہی لیکن قافلے کی قسمت نہیں بدل سکی۔ جو بھی امیر قافلے کی قیادت کا منصب سنبھالتا وہ منزل کو بھول کر اقتدار کی رعنائیوں کو حاصل منز ل سمجھ بیٹھتا۔ یوں قافلہ بنی اسرائیل کی قوم کی طرح عشروں تک صحرائے سینا میں بھٹکتا رہا۔ مسافت کی ہر شام کے دھندلکے کو امیر کارواں صبح کا نور بتاتا اور یہ کہتا کہ بس سویرا ہوا چاہتا ہے یہ جھٹپٹا دیکھ رہے ہو؟

یہ اندھیرے اور روشنی کا سنگم ہے۔ بس کچھ ہی دیر میں اجالا ہو جائے گا ایسا اجالا جس میں ہمیں منزل دور سے دکھائی دے گی۔ لیکن ہر جھٹپٹے کے بعد رات کی تاریکی چھا جاتی، تاریکی جس میں آسمان سے بلائیں اترتیں، جو قافلے والوں کے بچے اٹھا لے جاتیں، زمین سے اگنے والا قحط ان کے جانور کھا جاتا، بھٹکتے قافلوں کی تاک میں بیٹھے راہزن ان کا مال و متاع لوٹ لیتے، یوں یہ لٹا پٹا بدحال قافلہ منزل کے سراب میں بھٹکتا رہا بھٹکتا رہا یہاں تک کہ انہی میں سے ایک خوبرو جوان اٹھا۔ اس نے کہا۔

لوگو، میری بات سنو، لوگ تین وجوہات کی وجہ سے امارت کے طلبگار ہوتے ہیں۔

دولت کی ہوس۔

شہرت کی طمع۔

طاقت کی طلب۔

میرے پاس خدا کا دیا سب کچھ ہے۔ دولت شہرت اور حسن گھر کی لونڈی ہے، خدا جانتا ہے کہ قوم کی کسمپرسی کا خیال نہ آتا تو کبھی خود کو عیش وعشرت سے نکال کر اس بدحال قافلے کا مسافر نہ بناتا، جھوٹ کہوں تو کلمہ نصیب نہ ہو، میں ہی وہ شخص ہوں جس کا تم لوگوں کو صدیوں سے انتظار تھا، اگر زمام اقتدار میرے حوالے کرو تو وعدہ کرتا ہوں کہ قلیل مدت میں تم لوگوں کے مصائب و آلام کو حرف غلط کی طرح مٹا دوں گا۔ تمہارے سب کے اپنے گھر ہوں گے، کھانے کو وافر رزق ملے گا، بچوں کے روزگار کی کوئی پریشانی نہیں ہو گی اور امن امان تو ایسا ہو گا کہ گویا جنت ارضی۔

جوان سردار کی بات پر کچھ قافلے والوں نے یقین کیا جب کہ کچھ بے اعتباری سے اسے دیکھتے رہے۔ یہ کیسے ہو گا جوان؟ تم سے پہلے بھی بہت سے سوداگر ہمیں ایسے جھوٹے خواب بیچ کر دھوکہ دے چکے ہیں۔ کہیں تم بھی تو ان جیسے تو نہیں؟ نہیں نہیں، پہلے والےچور، راہزن اور عادی لیٹرے تھے۔ میں ایک عالی و ارفع اور ایماندار انسان ہوں میری ساری زندگی گویا تم لوگوں کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہے۔ بس ایک دفعہ مجھے امیر بنا کر دیکھو میں تم لوگوں کے سب دلدر دور کر دوں گا۔ (انشاءاللہ)

اب یہاں قافلے والوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ بہت سے لوگ امارت کے طلبگار نوجوان کے ساتھ ہو گئے جب کہ کچھ ابھی بھی پرانے امیر کارواں سے مایوس نہیں تھے۔ یوں گھمسان کا رن پڑا، پرانے امیر کو ایک دفعہ پھر معزول کر کے خوبرو جوان کو امیر کارواں بنا دیا گیا۔ کچھ دن تو یوں ہی جشن میں گزر گئے۔ جب قافلے کے پڑاؤ کو کئے ہفتے گزر گئے تو لوگوں نے سرگوشیوں میں امیر کارواں سے پوچھا کہ وہ کوچ کا حکم کیوں نہیں دیتا، کیا ابھی سفر شروع کرنے میں کوئی خطرہ ہے؟

نیا امیر اپنی جلد باز قوم سے بڑا عاجز ہوا۔ اس نے بتایا کہ وہ ابھی استخارہ کر رہا ہے کہ کس سمت میں سفر قافلے والوں کے لیے موزوں رہے گا؟ جب قافلے والوں نے یہ سنا تو اہل علم کے دل بیٹھ گے انہیں طرح طرح کے وسوسوں نے گھیر لیا۔ نئے امیر نے قافلے کی ترتیب بنانے اور کوچ کرنے میں مہینوں لگا دیے اس پر مستزاد وہ ہر کچھ دن بعد اپنا رخ بدل لیتا۔ جب لوگ شکوہ کرتے "یا امیر" منزل نہ سہی ابھی تک کوئی نشان منزل کوئی سنگ میل بھی کیوں نہیں ملا؟

تو امیر خفا ہو جاتا اور کہتا میں تم لوگوں کو منزل پر پہنچانے نہیں بلکہ ایک قوم بنانے آیا ہوں۔ مجھ سے امن و امان، روزگار، اور قافلے کی سمت جیسے ادنیٰ چیزوں کے بارے میں سوال مت کرو۔ یہ تم لوگوں کی خوش قسمتی ہے کہ میں تم لوگوں کا امیر ہوں، کیا تم نے دیکھا نہیں کہ دیگر قافلے تم سے کتنا رشک اور حسد کرتے ہیں؟ امیر کی بات سن کر لوگ سوچ میں پڑ جاتے کہ کون سے لوگ ہم سے رشک کرتے ہیں؟

رفتہ رفتہ امیر کے مصاحبین نے قوم پر الزام لگانا شروع کیا کہ تم لوگوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے قافلہ بھٹک گیا ہے خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور امیر جیسی نعمت کے کفران سے باز رہو ورنہ دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا ہو جاؤ گے۔ لیکن قافلے والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اور خالی باتوں اور وعدوں سے پیٹ کہاں بھرتا ہے؟ یوں اپنی عمر کے سینتیس سال ایک بے سمت قافلے میں بھٹکنے کے بعد میں نے ایک شام ایک خرانٹ شخص کو دیکھا جو سابقہ امیر کا بردار خورد تھا اور وہ اقتدار کی بگھی پر کھڑا لوگوں سے کہہ رہا تھا۔

لوگو، یہ جھٹپٹا شام کا نہیں بلکہ ایک روشن دن کی سحر ہے۔ میں ہی وہ شخص ہوں جو تمہیں منزل پر پہنچا سکتا ہے۔ میرا اعتبار کرو اور مجھے کچھ سالوں کی مہلت دے دو۔ میں تم لوگوں کے سب دلدر دور کر دوں گا۔ میں نے مایوسی سے دائیں بائیں دیکھا۔ سب لوگ بڑے اشتیاق سے اس حریص شخص کی گفتگو سن رہے تھے۔ میں نے خاموشی سے اپنے گھوڑے کا رخ موڑا اور اس کے ساتھ ہی شام کے دھندلکے میں غائب ہوتا چلا گیا۔

Check Also

Kitabon Ka Safar

By Farnood Alam