Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qasim Taj
  4. Iqbal Ke Dais Mein

Iqbal Ke Dais Mein

اقبال کے دیس میں

ہم شیولا سنگھ تیجا مندر کے سامنے کھڑے تھے، میرے ساتھ بلال، تیمور اور میرا سیالکوٹی دوست ارسلان احمد تھے۔ مندر کے دروازہ کو تالا لگا ہوا تھا، میں نے بلال کو وہاں پر موجود سرکاری افسر کو ملنے اور اس کو رشوت کے ذریعے دروازے کھولوانے کا مشورہ دیا تیمور اور بلال نے اس افسر کو کل دو سوروپے تھمائے تو وہ دروازہ کھولنے پر آمادہ ہوگیا اس نے دروازہ کھولا اور ہم اندر داخل ہوگئے۔ میں کلر کہار میں موجود کٹاس راج مندر بھی جا چکا ہوں، میں کراچی میں ویرن دیو مندر کو بھی باہر سے دیکھ چکا ہوں مگر میں نے آج تک کوئی مندر باقاعدہ چلتا ہوا نہیں دیکھا تھا جہاں پوجا پاٹ ہوتا ہو۔

میں اندر داخل ہوا تو میرے دماغ میں انڈین فلموں کے بے شمار سین گھوم رہے تھے، مجھے لگ رہا تھا، مجھے گھنٹی بجانی چاہیے، مجھے ہاتھ جوڑنے چاہیے اور اندر شیولانگ پر دودھ گرانا چاہیے پھر اچانک مجھے اپنا مسلمان ہونا یاد آیا اور ایک دم میں نے اپنے تمام خیالات کو جھٹکا۔ میڈیا اور ففتھ جنریشن وار فئیرکتنا سنگین ہے آپ اس بات کا اندازہ میرے ان خیالات سے لگا سکتے ہیں۔ میں اس دن ارسلان کے کمیونیکشن کا فین ہوگیا وہ پورا سفر کے دوران صرف صرف تب بولے جب بولنا بہت ضروری تھا مگر پھر بھی اس نے ایک بہترین گائیڈ کا کام کیا۔ بلال اور تیمور مسلسل زبان چلائی جارہے تھے وہ ایک دوسرے کو کسی نہ کسی بات پر تنگ کیے جا رہے تھے خاص کر کہ بلال تو تیمور ایسے تنگ کر رہا تھا جیسے کوئی میاں اپنی بیوی کو طعنے مار رہا ہو۔

ہم مندر سے پہلے علامہ اقبال کی جائے پیدائش اقبال منزل بھی گئے۔ بلڈنگ قابل دید تھی اور کافی حد تک اپنی حالت میں قائم تھی اور باقی رینویشن کی نظر ہوگئی۔ بلڈنگ کے دوحصے کر دئے گئے ہیں ایک حصہ لائبریری ہے اور دوسرا حصہ میوزیم۔ میوزیم کی دیواروں پر مرشد کے اشعار ہیں جن کو پڑھ پڑھ کر ایک پاکستانی مسلمان کا دل ہچکولے کھاتا ہے۔ مرشد کی کچھ نایاب تصاویر بھی پڑی ہوئی ہیں اور مرشد نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں اور آپ دنیا بدلنا چاہتے ہیں تو ایک زندگی بہت ہے۔ مجھے وہاں ایسے لگ رہا تھا جیسے میں اپنے کسی استاد کے پاس کھڑا ہوں وہ مجھے بار بار اپنے تعلیمات یاد کروا رہے ہوں اور میں ان کو بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آج کی دنیا مرشد آپ کی دنیا سے بہت مختلف ہے انگریزوں کو اب ہمیں غلام بنانے کے لیے موبائل فون ہی کافی ہے۔ خیر میری آپ سے درخواست ہے آپ بھی مرشد سے گفتگو کرتے رہا کریں آپ کو بھی سوالوں کے جواب مل جائیے گے۔

ہم وہاں سے ہیڈ مرالہ بھی گئے ہیڈ مرالہ سیالکوٹ سے کوئی پندرہ کلومیڑ دور ہیڈ ورکس ہیں جو دریا چناب کو مرالہ راوی کنال اور اپر چناب کنال میں تقسیم کرتا ہے جہاں سے یہ ضلع گجرانوالہ اور ہیڈ بلوکی کے ذریعے لاہور کے علاقوں کو سیراب کرتا ہے۔ ہیڈ مرالہ قابل دیدتھا، ہم لوگ گاڑی سائیڈ پر لگا کر بریج پر کھڑے ہوگئے، بریج میں لچک کی وجہ سے جب بھی کوئی گاڑی پاس سے گزرتی ہے تو وہ جو وائبریٹنگ ایفیکٹ پیدا کرتی اس سے ہمارے دل دہک جاتے تھے۔ ہم خوف کو قریب سے محسوس کرتے میں اور ارسلان ایک دوسرے کی طرف دیکھ اور خوف کو انجوائے کررہے تھے۔

بہت عرصہ بعد مجھے میری گاڑی نے بہت تنگ کیا۔ اس دن دو دفعہ گاڑی کے ٹائر خراب ہوگئے اور یہ کام کراتے کراتے ہمارے تقریبا تین گھنٹے ضائع ہوگئے خیر بقول ارسلان مسائل نہیں آئیں گے تو کہانی کیسے بنے گی۔ ہم نے رات میں ہیڈ مرالہ سے سیالکوٹ کے راستے میں شیرپور کے مقام پر ٹائر پنکچر لگوایا اوروہاں سے سادہ سے ہوٹل پر کھانا کھایا۔ کھانا میں دال چنا اور دال ماش تھیں مگر ان کا ذائقہ کسی بھی شاندارہوٹل سے کم نہ تھا مجھے اس دن احساس ہوا کہ کھانے کے مزے کا تعلق ذائقہ سے زیادہ بھوک سے ہے۔

کھانے کے بعد ہم لوگ سیالکوٹ کے مشہور ٹی سٹال نیشنل ٹی سٹال سے چائے بھی پی اور سیالکوٹ کی مشہور گوند والی برفی بھی کھائی اور دونوں ہی زائقہ میں لاجواب تھیں خاص کر کے چائے جس میں شاید کچھ ملایا ہوا تھا کیونکہ اتنی مزے دار چائے میں نے تو نہ آج تک نہیں پی تھی۔ ہم لوگ ارسلان کو اس کے گھر اتارا اور واپس سیالکوٹ موٹر وے پر چڑھ گئے۔ رات گہری ہورہی تھی، بارہ بج رہے تھے، مجھے ہلکی ہلکی نیند آرہی تھی میں اب جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا اور بس۔

Check Also

Muhib e Watan Bangali

By Syed Mehdi Bukhari