Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Qasim Taj/
  4. Aur Phir Faisalabad

Aur Phir Faisalabad

اور پھر فیصل آباد

شام ڈھل رہی تھی، عقیل طاہر گاڑی چلارہے تھے، لاہوراسلام آباد موٹروے باقی تمام موٹرویز کی نسبت انتہائی دلکش ہے۔ یہاں کی شامیں، شامیں نہیں نشہ ہیں۔ ایک ایسہ نشہ جوآئس، سے بھی زیادہ گہرا ہے، یونیورسٹی کے طالبعلموں کو کیا پتہ کہ نشہ، کیا ہوتا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں کی سطح سے ذرا اوپر دیکھا توسامنے سورج تھا، آسمان تھا، سڑک تھی اوردونوں جانب درخت ہی درخت۔ درختوں میں سے سورج کی روشنی چھن چھن کر سڑک پر ترچھی گر رہی تھی ،ظاہری روشنی سُرخی مائل تھی، مجھے اپنی ساری زندگی اپنے سامنے سے جاتے ہوئے نظرآ رہی تھی۔ مجھے اپنے سابقہ غلط فیصلوں پر ندامت بھی ہورہی تھی، میں پہلے سے بہتر فیصلے لینے کا ٰعزم کر رہا تھا اور ہماری گاڑی اس سارے منظر کو کاٹتے ہوئے فیصل آباد کی جانب جا رہی تھی۔

یوں تو میں کئی دفعہ فیصل آباد جا چکا ہوں، لیکن اس دفعہ میں نے اس کو بہتر انداز میں دیکھنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔ ہم نے ڈجکوٹ روڈ پر گاڑی لگائی اور ایک پرانے گھر کے ذریعے دانہ منڈی میں داخل ہوگئے۔ پرانی بلڈنگز کچھ انسانوں کو عجیب قسم سے کھینچتی ہیں، اٹھارہ اٹھارہ انچ کی موٹی دیواریں اور ان پر پیلا رنگ، درمیان میں کھلا صحن اور چاروں جانب کمرے ہی کمرے، ایک نکڑ میں کم چوڑی مگر زیادہ لمبی سیٹرھیاں مجھے ایسے گھروں میں جا کر ایسا لگتا ہے جیسے وقت رُک سا گیا ہو ،اور میں اپنی نانی اماں کے گھر پہنچ گیا ہوں۔ ہم سب کزنز اپنی اپنی معصوم باتیں ایک دوسرے سے بیان کر رہے ہوں ،نہ کوئی مقابلہ، نہ کوئی حسد، نہ آگے بڑھنے کی دوڑ، بس کھٹی میٹھی باتیں ، کہ میرے ابو نے یہ کیا، میرے ماموں نے یہ کیا، میرے بھائی نے یہ کیا اور چھوٹی چھوٹی شرارتیں۔

عقیل طاہرمیں کوئی بُری عادت نہیں ہے، زندگی کے اکثر معاملات میں میرے محسن ہیں، زبردست "لرنر" ہیں، بس شیخ ہیں اورخالص کاروباری آدمی۔ مجھے بے شمار عملی زندگی کی باتیں انہوں نے سیکھائی ہیں ۔جیسے ہم ایک دفعہ مہنگی جوتوں کی دوکان پر تھے ،عقیل نے مجھ سے ایک جوتے کی قیمت پوچھی، میں نے قیمت پڑھی اور مسکرا دیا انہوں نے مجھے ایک نسخہ بتایا کہ "یہ جوتے تم سے اس قیمت کی وجہ سے دور نہیں بس کچھ دن اور محنت کی وجہ سے دور ہیں "۔ بس وہ دن ہے اور آج کا دن میں چیزو ں کو ان کی قیمت کے لحاظ سے نہیں، بلکہ اپنے وقت اور اپنی محنت کے متبادل کے طور پر دیکھتا ہوں۔

میں وہاں ملحقہ تمام مارکیٹس بھی گھوما۔ میں جب گارمنٹس مارکیٹ میں داخل ہوا تو وہاں نکرپر موجود ہوٹل پر ایک شخص تنہا بیٹھا ہوا تھا۔ پردیسی تھا شاید۔ وہ تھا اکیلاہی لیکن مجھے پتہ نہیں کیوں اس کے ساتھ اس کی بیما ر ماں کی دوائیاں، اس کے اسکول جاتے ہوئے بچے کی فیں، گاوں میں موجود پرانے گھر کی گرتی ہوئی دیوار یں، بیگم کے بیچے ہوئے سونے کے کنگن سب نظر آرہے تھے۔ اپنے شہر میں باعزت روزگار مل جانا کتنی بڑی نعمت ہے، مجھے ا س بات کا تب اندازہ ہوا۔ میں وہاں کیمیکل مارکیٹ، اسپورٹس گارمنٹس ہوزری مارکیٹ بھی گیا ،میں نے وہاں موجود برطانیہ کے جھنڈے کی نقل کے آٹھ بازار بھی دیکھے۔

یہ شہر انگریز جیمز واٹسن لائل نے آباد کیا تھا ۔مادری ملک کس کو پیارا نہیں ہوتا، اور اس محبت سے اس نے یہاں آٹھ بازار اور درمیان میں گھنٹہ گھر بنوایا۔ بازاروں کے نام ان کی کسی خاص وجہ یا جس علاقے کی طرف اُن کا رُخ ہے اس پر ہے۔ یہاں کے لوگوں میں بھی ہلچل ہے پر لوگ کھلے مزاج کے ہیں۔ کھل کے مذاق کرتے ہیں اورقہقہہ کھل کے لگاتے ہیں۔ پوری دنیا میں اٹھارہ سے انتیس سال کی نوجوانوں عمر ی میں لوگوں کو سب سے زیادہ ڈپریشن، لاحق ہوتا ہیں ۔مگر یہاں کے نوجوان شاید اس سے میلوں دور ہوں شاید یہ ان کے مجموعی رویوں کا نتیجہ ہے۔ ہم نے وہاں سے مشہور کبابوں سے کباب کھائے۔ عقیل نے بِل ادا کیا اور ہم لوگ پیدل گاڑی کی طرف چل پڑے۔ ہم لوگ چلتے رہے پر گاڑی آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ یہ وآپس مقام پر جانا مشکل کیوں ہوتا ہے؟ ہم وہاں گاڑی میں بیٹھے اور گھر کی جانب روانہ ہو پڑے۔

Check Also

Ahal e Riwayat Aur Kar e Tajdeed

By Muhammad Irfan Nadeem