Aik Nazar Idhar Bhi
ایک نظر ادھر بھی
آزاد کشمیر میں صدارتی آرڈیننس نے عوام کو شدید اضطراب میں دھکیل دیا، یہ دراصل کیا ہے؟ آزاد کشمیر کے سابق چیف جسٹس جناب محمد ابراہیم ضیاء کا کالم اس پر ایک مستند دستاویز ہے۔ وہ پڑھیے اور دیکھیں کے کیا وادی کشمیر کے غیور عوام اس کے متحمل ہو سکتے؟ جب سے یہ حکومت آئی ہے جس قدر ہڑتالیں، مظاہرے، بے چینی، افراتفری کا کشمیر میں سلسلہ ہے وہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔
جب سے جناب انوار الحق سرکار کی حکومت آزاد کشمیر میں آئی، اس کے بعد یوں تو عالیشان منصوبے بنانے، بلند بانگ دعوے کرنے اور ہتھیلی پر سرسوں اُگانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں مگر عمل اور اخلاص عمل کی توفیق ہمیں کم نصیب ہوتی ہے۔ ان کے جلوہ افروز ہوتے ساتھ ہی آٹے کی ڈیلر شپ پر پہلے ایک ماہ، پھر اب تاحیات پابندی لگا کر عوام کو دفاتر میں خوار کیا جارہا، ان کا دعویٰ تو یہ تھا کہ ایک ماہ میں سیاسی بنائے گئے ڈیلر شپ لائسنسز منسوخ کرکے نئے لائنسز کا اجراء بمطابق آبادی کیا جائے گا، لیکن شاہد حسب روٹین بھول ہی گئے ہوں۔ آزاد کشمیر کے مین سٹریم میڈیا نے کئی مرتبہ اس طرف توجہ دلائی مگر بس دعویٰ ہی کافی ہے کے مصداق وہ معاملہ دبایا گیا۔
اب اس سے بھی بدترین صورتحال یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے کئی طلباء و طالبات جنہیں خوش قسمتی سے بیرون ممالک سکالر شپ ملی تھیں، کئی لوگ جو عمر رسیدہ ہیں، کئی بیمار پاسپورٹ کے حصول کے لئے عرصہ پانچ ماہ سے خوار ہیں، غریب طلباء پاسپورٹ کی تاخیر، ارجہ، مظفر آباد پاسپورٹ عملہ کا آفسر شاہی رویہ دیکھ کر سکالر شپ سے ہاتھ دھو بیٹھے، حالانکہ وادی کشمیر کی عوام کو یہ سہولت ترجیح بنیادوں پر ملنی چاہیے مگر وہ اسی صورت ممکن ہے کہ قیادت کو ان کے دکھ درد کا احساس ہو۔
جناب سے بذریعہ کالم ہذا درد مندانہ درخواست ہے کہ باقی تمام شہروں کے بیک لاک ختم کر دئیے گئے، اگر آپ بھی کشمیر کی نمائندگی کا حق ادا فرمائیں تو طلباء، خواتین کو اس کرب سے نجات دلائیں۔ پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ کشمیر میں پاسپورٹ اپلائی کی تعداد بڑے شہروں سے کم ہوگی، اگر ان کا بیک لاک ختم کیا گیا تو کشمیریوں کا کیا قصور؟ بمطابق میڈیا رپورٹس اسلام آباد میں 14 ہزار 673 کراچی میں 83 ہزار 227 پاسپورٹس کا اجراء ہوا۔ لاہور گارڈن ٹاؤن سے 30 ہزار 848، رائے ونڈ سے 4 ہزار 872 اور شادمان سے 11 ہزار 490 کیسز کلئیر کردیے گئے۔ کوئٹہ میں 7 ہزار 252، راولپنڈی میں 18 ہزار 400 اور پشاور میں 23 ہزار 145 کیسز نمٹا دیئے گئے۔ ہوم ڈیلیوی کے لیے 5 ہزار 650 اور 15 ہزار 848 ارجنٹ پاسپورٹس شہریوں کو موصول ہوگئے۔ سفارت خانوں کے ذریعے اپلائی کیے 17 ہزار 972 نارمل اور 41 ہزار 712 ارجنٹ کیٹگری کے کیسز بھی کلئیر کردیے گئے۔
ڈی جی پاسپورٹ اور ان کے عملہ کا افسوسناک رویہ یہ بھی ہے کہ وہ آزادکشمیر کے شہریوں کی مشکلات میں نہ تو ای میل کا جواب دینا گوارہ کرتے ہیں نہ ہی ان کے نمبرات سے کال کا جواب موصول ہوتا ہے۔ قائد اعظم کے وہ الفاظ کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، یاد آتے ہیں اور پھر کشمیریوں کے ساتھ یوں آفسر شاہی رویہ تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ایک بنیادی ضرورت کے لئے مروجہ فیس، قواعد مکمل کروانے کے بعد یوں طلباء کو سکالر شپ، شہریوں کو عمرہ جیسی مقدس ادائیگی سے بوجہ پاسپورٹ تاخیر مرحوم کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا یہی کشمیریوں کا حق ہے، کیا یہی کشمیری قیادت کے دعویٰ کا عملی ثبوت ہے۔
سرکاری دفاتر میں عوام کے ساتھ جوسلوک کیا جاتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ فائلوں کے گورکھ دھندے نے پورے نظام کوعملاً مفلوج کرکے رکھ دیاہے۔ شاید ہی کوئی کام فائل کا پیچھا کئے بغیر نارمل طریقہ کارکے مطابق ہوجائے۔ پالیسیز اور کمنٹس کے نام پر اہم کیسز فائلوں کی نظر ہوجاتے ہیں۔ اعلیٰ افسروں کا یہ طرز عمل اور رویہ نچلے درجے کے سٹاف اور بابوؤں میں بھی ایک وبا کی طرح سرایت کر چُکا ہے جو کہ کرپشن اور اقربا پروری کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
بیورو کریسی میں بھی سیاستدانوں کے پسندو نا پسند کی بنیاد پر گروپس بن چُکے ہیں جو کہ اپنی وفاداری ثابت کرنے کیلئے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اعلیٰ عہدوں پر تقرریاں بھی کم و بیش اس بنا پر ہوتی ہیں۔ یقیناََ اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں مگروہ اجتماعی سوچ اور رویے میں تحلیل ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کام نہ کرنے کیلئے قانون، نظام، سیاسی مداخلت، اختیار نہ ہونے جیسے بہانے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی افسر دیانتداری اور لگن سے کام کرنا چاہتے تو اُس کے لیے 24 گھنٹے بھی کم ہیں اور آج کے دور میں بھی چند افسروں نے دیانت، اخلاص اور لگن سے اس بات کو سچ ثابت کیا ہے۔
کوئی پالیسی یا اقدام اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک افسر شاہی اُس میں اخلاص کے ساتھ شامل نہ ہو۔ خود احتسابی کا نظام عملاً ختم ہو چُکا ہے۔ قوانین اور ضابطوں کو کام نہ کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے نہ کہ آسانیاں پیدا کرنے کیلئے۔ ہماری افسرشاہی کی مجموعی سوچ آج بھی نوآبادیاتی دور کی یاد دلاتی ہے۔ اگر سول سرونٹس اپنی سروس کے حقیقی معنوں کو سمجھتے ہوئے کام کریں تو ملک میں انقلابی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اپنی انفرادی سوچ میں بہتری لاتے ہوئے ملک کی بہتری کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے بڑے بڑے دفاتر کو ترجیح دینے کے بجائے ملک کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں ذمہ داری سر انجام دینے کو اولیت دینے کی ضرورت ہے۔
آزاد کشمیر کی غیور عوام کو کبھی آٹے، کبھی پاسپورٹ، کبھی صدارتی آرڈینیس کے ذریعہ اپنے بنیادی حقوق کے لئے شٹر ڈاون، پہیہ جام کی کال دینی پڑتی، ہمارے اعلیٰ قیادت کے لئے لحمہ فکریہ ہے کہ راولاکوٹ میں ہونے والے مطاہرے کو بھارتی میڈیا نے کس بری طرح دنیا کے سامنے لایااس سے ہماری ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔ اس کے باوجود ایک چھوٹی سی ریاست جس سے کئی گنا زیادہ آبادی پنجاب میں ایک ڈی سی صاحب چلا رہے، وزراء، سیکرٹریزصاحبان، اب تو انوارالحق جناب نے سپشل سیکرٹریز بھی تعنیات کر رکھے، مگر عوام یوں ہی بنیادی حقوق کے لئے در بدر ہیں۔
جناب والا سے مکرر التجا ہے کہ پاسپورٹ کی اجرائیگی کے لئے متعلقہ ادارے سے رابطہ فرماتے ہوئے کشمیری طلباء، خواتی، بزرگوں پر رحم فرمائیں اور آزاد کشمیر کے پاسپورٹ دفاتر کو پابند فرمایا جائے کہ وہ عوام کی مدد کریں ان سے اچھا سلوک کریں۔ امید ہے جناب والا غور فرمائیں گے۔