Odyssey
اوڈیسی
میں نے اوڈیسی پہلے نہیں پڑھی تھی۔ یہاں نویں جماعت میں ایک سیمسٹر ہیروز جرنی کے عنوان سے ہوتا ہے۔ اس میں اوڈیسی شامل ہے اور کچھ حصے پڑھائے جاتے ہیں۔ بچوں کو پڑھانے کے لیے مجھے پڑھنی پڑی۔ ایسا لطف آیا کہ بیان سے باہر ہے۔
دراصل یونانی شاعر ہومر سے ہزاروں سال پرانی دو طویل نظمیں منسوب ہیں جن کے نام الیاڈ اور اوڈیسی ہیں۔ الیاڈ میں ٹروجن وار کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کیوں ہوئی اور اس میں کیا کچھ ہوا۔ ہیلن آف ٹروئے کا نام شاید آپ نے سنا ہو جو دنیا کی سب سے خوبصورت عورت تھی۔ یہ جنگ اس کی ملکیت کے لیے ہوئی۔ اوڈیسیئس ایک ذہین آدمی تھا جس کے مشورے پر لکڑی کا بڑا سا گھوڑا بنایا گیا اور ٹروئے والے اسے دھوکے میں شہر کے اندر لے گئے۔ اس گھوڑے کے اندر اوڈیسئس اور دوسرے جنگجو موجود تھے۔ رات کو انھوں نے باہر نکل کر شہر کا دروازہ کھول دیا۔ ان کی فوج گھس آئی اور جنگ جیت لی۔
اوڈیسی کی کہانی جنگ کے بعد شروع ہوتی ہے اور اوڈیسیئس کی وطن واپسی کے سفر پر مبنی ہے۔ اس نے سمندروں کے دیوتا پوسائیڈن کے بیٹے کی آنکھ پھوڑ ڈالی تھی۔ اس پر پوسائیڈن نے خفا ہوکر اس کے راستے میں مشکلات کھڑی کرنا شروع کردیں۔ کبھی طوفان لے آیا، کبھی ہوائیں بند کردیں، کبھی جہاز ڈبو دیا۔ یوں اوڈیسیئس کا سفر طویل ہوتا چلا گیا۔ ایک ایڈونچر کے بعد دوسرا ایڈونچر شروع ہوجاتا اور ایک مشکل کے بعد دوسری مشکل کھڑی ہوجاتی۔
اس دوران اوڈیسیئس کو ایک دیوی کلیپسو نے اپنے جزیرے پر قید کرلیا اور سات سال تک اس سے جنسی خواہش پوری کرتی رہی۔ گویا اوڈیسیئس مزے کرتا رہا لیکن گھر کو یاد کرکے روتا بھی رہا۔
مجھے سب سے دلچسپ وہ واقعہ لگا جب اوڈیسیئس انڈرورلڈ پہنچا۔ اس کہانی میں انڈرورلڈ ایسا جزیرہ ہے جہاں موت کے بعد روحیں قیام کرتی ہیں۔ وہاں اوڈیسیئس کی ملاقاتیں ماضی کے لوگوں سے ہوتی ہیں۔ وہ اپنی ماں کو دیکھ کر حیران اور دکھی ہوجاتا ہے کیونکہ برسوں پہلے جب وہ گھر سے نکلا تھا تو ماں زندہ تھی۔
اوڈیسی اور الیاڈ کا معاملہ الف لیلہ جیسا ہے، یعنی جدید تحقیق کرنے والوں کا خیال ہے کہ انھیں کسی ایک شخص نے نہیں کہا۔ نسل در نسل کہانیاں شامل کی جاتی رہیں۔ ہومر نام کا کوئی بندہ اگر تھا بھی تو اس نے بس پرانی روایت کے مطابق ان کہانیوں کو ہم تک پہنچایا۔ ورنہ اس سے پہلے یہ نظمیں یا کہانیاں سینہ بہ سینہ منتقل ہورہی تھیں۔
قدیم یونانی زبان کی ان نظموں کا بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ کہتے ہیں کہ صرف انگریزی میں اس کے 60 سے زیادہ تراجم ہوئے ہیں۔ رابرٹ فٹزجیرالڈ کا ترجمہ زیادہ مقبول ہے جو 1961 میں شائع ہوا اور اس کی 20 لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ اسکولوں کی لائبریریوں اور کلاس رومز میں یہی کتاب ملتی ہے۔ لیکن میں نے اپنے لیے ایمیلی ولسن کا نیا ترجمہ خریدا۔ یہ 2017 میں چھپا اور بہت آسان ہے۔ ایمیلی نے اس کے بعد الیاڈ کا بھی ترجمہ کیا اور میرا جلد اسے پڑھنے کا ارادہ ہے۔
اویڈیسی کا اردو میں ترجمہ محمد سلیم الرحمان صاحب نے کیا جو جہاں گرد کی واپسی کے نام سے دستیاب ہے۔
ٹروجن وار، الیاڈ اور اوڈیسی پر متعدد فلمیں بن چکی ہیں۔ ایک اتفاق یہ ہوا ہے کہ ادھر میں نے اوڈیسی پڑھانی شروع کی اور ادھر اس کی کہانی پر نئی فلم نمائش کے لیے تیار ہے۔ ریٹرن کے نام سے یہ فلم چھ دسمبر کو سینما گھروں میں پیش کی جائے گی۔