Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Usman/
  4. Batein Baqar Eid Ki

Batein Baqar Eid Ki

باتیں بقرعید کی

اگرچہ آپ کو پتا ہو گا لیکن پھر بھی بتا دیں کہ بقر عید مسلمانوں کا تہوار ہے، اب آپ کہیں گے جو ہم جانتے ہیں وہ بتانے کا کیا فائدہ؟ تو بھیا آپ تو یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ آپ کا پاکستان ہے، پھر بھی بتایا جاتا ہے ناں کہ، یہ میرا پاکستان ہے یہ تیرا پاکستان ہے۔ آپ کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں ایک جمہوری حکومت قائم ہے، پھر بھی ہر جمہوری حکومت بار بار جتاتی ہے کہ، دیکھو میں جمہوری حکومت ہوں، اور میں قائم ہوں۔

دنیا بھر میں یہ امر طے شدہ ہے کہ حکومت اور ریاست کے ادارے ایک صفحے پر ہوتے ہیں، لیکن آپ کو تواتر سے سننا پڑا ہے کہ، ہم ایک پیج پر ہیں، تو اگر ہم نے یہ یاد دلا دیا کہ بقر عید مسلمانوں کا تہوار ہے تو اس میں بُرا ماننے کی کیا بات ہے؟ ہاں تو ہم آپ کو بقر عید کے بارے میں بتا رہے تھے۔ یوں تو اس کا اصلی نام عیدالاضحیٰ ہے، لیکن ہم مسلمان گائے سے لگاؤ کے باعث اسے بقر عید کہتے ہیں۔

گائے کو تو چاہیے کہ مسلمانوں کی یہ محبت دیکھتے ہوئے از خود قربان ہو جائے، لیکن وہ آخر وقت تک پچھاڑیں کھاتی اور لاتیں چلاتی رہتی ہے۔ یقیناً گائے کے علم میں نہیں کہ یہ اُمت مغفور اس سے کتنا پیار کرتی ہے، ورنہ بقر عید نزدیک آتے ہی وہ خود آپ کے دروازے پر آ کھڑی ہو، اور جوں ہی آپ دروازہ کھولیں وہ جھوم جھوم کر گانا شروع کر دے، تجھ پہ قربان، شیر دل خان، میں تیری تو میرا جاں ناں ناں وئی۔

آپ گھبرا کر کہیں، کیا کرتی ہو، بیگم نا جانے کیا سمجھ بیٹھیں، پھر وہ آپ کو سمجھائے، بھائی صاحب! میں کوئی ایسی ویسی نہیں ہوں، کسی خوش فہمی میں نہ رہیں، میں آپ پر نہیں آپ کے ہاتھوں قربان ہونے آئی ہوں، عید پر قربانی نہیں کرنی کیا؟ سوچیے یہ سُن کر آپ کا کیا حال ہو گا؟ اور جب بروزِ عید وہ خود دھیرج سے لیٹ کر اپنا گلا چُھری کو پیش کر رہی ہو گی تو، میں نے اس کے ہاتھ میں پہلے تو خنجر رکھ دیا پھر کلیجہ رکھ دیا، دل رکھ دیا، سر رکھ دیا کا منظر ہو گا، اور آپ، گائے کی قربانی کی ہے کے بجائے کہہ رہے ہوں گے، گائے نے قربانی دی ہے۔

ہماری قوتِ تخیل کچھ زیادہ ہی پرواز کر گئی، ورنہ وہ گائے ہے پاکستانی نہیں کہ یوں خود اور آسانی سے قربان ہو جائے۔ بقر عید کو نمکین عید بھی کہتے ہیں۔ ہم برِصغیر کے مسلمانوں کے چٹورے پن کی انتہا دیکھیے کہ ہم نے اپنے تہواروں کے نام بھی، میٹھی عید اور، نمکین عید رکھ چھوڑے ہیں۔ جن کے حلق سے، قاف نہیں نکلتا اور وہ، ق اور، ک کا فرق کُتے والا کاف اور، کینچی (قینچی) والا، کاف سے کرتے ہیں، وہ اس تہوار کو، بکرا عید کہہ کر اس کی نسبت گائے سے لے کر بکرے کو منتقل کر دیتے ہیں۔

گائے کی طرح بکرے کو بھی اپنی اس عزت افزائی کا علم نہیں، ورنہ وہ ہمارے دلوں میں اپنی محبت دیکھ کر مزید بکرا بن جاتا، اور جب آپ مویشی منڈی میں گائے کی قیمتیں سُن اور جیب میں موجود رقم گِن کر واپسی کا راستہ چُن رہے ہوتے تب اچانک کوئی منحنی سا بکرا دوڑا ہوا آتا اور آپ کے قدموں میں گر کر کہتا حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے، بکرا ہوں اگرچہ میں ذرا سا۔

گایوں، بکروں کے جذبات و احساسات کے بارے میں ہم قیاس آرائی ہی کر سکتے ہیں، ویسے لوگ باگ کہتے ہیں کہ قربانی کے جانوروں کو قربان ہونے سے ایک دن پہلے چُھریاں نظر آ رہی ہوتی ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے پاکستانیوں کو بجٹ آنے سے پہلے دکھائی دے رہی ہوتی ہیں۔ اس مثال سے گایوں، بکروں کی جذباتی کیفیت سمجھنا آسان اور ان سے ہمدردی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

بقر عید وہ تہوار ہے جس کے اپنے ہی محاورے، استعارے اور مخصوص الفاظ ہیں، جیسے، جانور آگیا؟ بعض بھولی بھالی خواتین یہ سوال سُن کر پورے بھول پن سے جواب دیتی ہیں نہیں، ابھی دفتر ہی میں ہیں۔ اسی طرح، منڈی چڑھی ہوئی ہے کی اطلاع سُنتے ہی ذہن میں کہیں یہ خیال نہیں ہوتا کہ یہ ذکر سبزی منڈی یا، کسی اور منڈی کا ہو رہا ہے، ورنہ ترنت کہا جاتا، ایک چھاپا پڑ جائے تو منڈی اُتر آئے گی۔

اس بار کیا کر رہے ہو؟ کا استفسار بھی عیدالاضحیٰ سے مخصوص ہے۔ جواباً منہ کھول کر، کیا کہا جائے تو کہنے والا اللہ میاں کی گائے قرار پائے گا۔ ایسے ہی، کب لا رہے ہو؟ بھی خاص، بقر عیدی سوال ہے، ہم جیسے سیدھے سادے لوگ اس کے جواب میں شرما کر کہتے ہیں، اماں لڑکیاں دیکھ رہی ہیں۔ یہ سُن کر سننے والا سمجھ جائے گا کہ قربان کرنے کا پوچھا گیا تھا جسے سُننے والا قربان ہونے کی بابت سوال سمجھا۔

جہاں تک سوالوں کا تعلق ہے تو اس تہوار کے 2 اہم ترین سوال ہیں، کتنے کا لیا؟ اور، کتنا گوشت نکلے گا؟ قیمت سُن کر 3 طرح کے ردِعمل سامنے آتے ہیں۔

پہلا تعریفی، واہ، صحیح مل گیا۔

دوسرا مروتاً، اچھا جانور لے آئے اور۔

تیسرا کدورتاً، حقیقتاً یا شرارتاً، مہنگا لے آئے بھائی جی۔

یہ تیسرا ردِعمل سُن کر دل چاہتا ہے کہ کہنے والے کے گلے پر بغدا چلا دیا جائے، لیکن پھر جلنے والے کا منہ کالا کہہ کر دل کو تسلی دے لی جاتی ہے۔ رہا، کتنا گوشت نکلے گا کا اندازہ تو اس کا تعلق، قیمت وصول ہو جائے گی کے اطمینان بخش تصور سے ہے، جو لبالب بھرے ڈی فریزر کے ساتھ ذہن میں ابھرتا ہے۔ بقر عید کا حسِ شامَّہ سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس تہوار کی ڈھلتی شام کے بعد طرح طرح کے پکوانوں کی خوشبو پانے کی خاطر کئی دن تک گایوں، بکروں کی، عطا کردہ بساند، چارے کی بُو اور آخر میں گوشت اور خون سے اٹھتی متلی آور مہک سونگھنے کے بعد کہیں جا کر بریانی، پائے، نہاری، کباب وغیرہ کی خوشبو نصیب ہوتی ہے۔

ظلم یہ ہے کہ گائے بکرے لانے والے بساند تو پورے محلے میں برابر تقسیم کرتے ہیں، لیکن گوشت کے حصے بانٹتے وقت بوٹیاں گن گن کر دیتے ہیں۔ ہماری آپ سے درخواست ہے کہ اگر آپ کے علم میں بدبو ناپنے والا کوئی سائنسی آلا ہو تو ہمیں آگاہ کیجیے، ہم یہ آلا خرید کر اہلِ محلہ کے لائے ہوئے جانوروں کی پھیلائی ہوئی بدبو ناپیں گے، اور پھر ان سے کہیں گے کہ بھیا! جس حساب سے بدبو دی ہے اسی حساب سے گوشت دینا۔

Check Also

Apni Jaron Se Miliye

By Arif Anis Malik