Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Yaroshalam Ki Sair

Yaroshalam Ki Sair

یروشلم کی سیر

اتوار کا دن یروشلم کی سیر کے لیے مخصوص تھا۔ ناشتے کے بعد شراکہ کے دوست ہمیں سگی کی گاڑی میں اولڈ سٹی لے گئے۔ پرانا شہر صدیوں سے قائم ہے اور اس کے چار حصے ہیں۔ مجھے واشنگٹن کا خیال آیا جو چار حصوں میں تقسیم ہے اور ہر حصہ دوسرے سے کچھ الگ ہے۔ لیکن یروشلم میں پرانے شہر کی تقسیم تاریخی اور مذہبی ہے۔ ایک مسلمانوں کا علاقہ ہے، دوسرا یہودیوں کا، تیسرا مسیحیوں کا اور چوتھا آرمینیوں کا۔ ان کے بالکل درمیان سے گلیاں نکلتی ہیں جن میں بازار ہے اور طرح طرح کی دکانیں ہیں۔

اولڈ سٹی کے اب آٹھ دروزے ہیں لیکن سلیمان عالیشان نے پانچ سو سال پہلے جب شہر کی دیواریں کھنچوائی تھیں تو سات دروازے تھے۔ ان کے نام آپ گوگل کرسکتے ہیں۔ ہمیں جفا گیٹ سے شہر میں داخل ہوئے جسے مسلمان باب الخلیل کہتے ہیں۔ یعنی یہ دروازہ حضرت ابراہیم سے منسوب ہے۔ اس دروازے کی پیشانی پر ایک عجیب کلمہ لکھا ہوا ہے۔ لا الہ الا اللہ، ابراہیم خلیل اللہ۔

اس دروازے پر گائیڈ مل جاتے ہیں۔ الیسا نے ایک گائیڈ سے ہمیں پرانا شہر گھمانے کی بات کی۔ اس نے دو گھنٹے کا کچھ معاوضہ طلب کیا جو شراکہ والوں نے طے کیا۔ گائیڈ کا نام یشائی سولومن تھا۔ اس نے سفر شروع کرنے سے پہلے ہمیں اپنی البم کھول کر دکھائی جس میں اہم مقامات کی نئی اور تاریخی تصاویر تھیں۔ یشائی نے کہا، اولڈ سٹی کے کسی بھی دروازے سے اس کے مرکز یعنی ڈوم آف دا روک تک جائیں تو دس منٹ لگیں گے۔ لیکن ہر اہم مقام پر ٹھہر کے تاریخ معلوم کریں تو دس دن لگ جائیں گے۔ یہاں جو پتھر اٹھائیں گے، وہ صدیوں کی کہانی سنائے گا۔ یہاں ہر گھر کے دروازے، کھڑکی، روشندان کی تاریخ ہے۔ اس کی شکل، بناوٹ، پتھر، جالیوں کو دیکھ کر بتایا جاسکتا ہے کہ وہ انبیاء کے زمانے کا ہے یا رومن دور کا ہے یا بازنطینیوں نے بنایا ہے، یا مملوکوں نے تعمیر کیا ہے یا عثمانیہ دور کی تخلیق ہے یا جدید زمانے میں وجود میں آیا ہے۔

ہمارے گروپ میں حنا بھی تھیں جو واشنگٹن سے آئی تھیں۔ کئی مشترکہ دوستوں کے باوجود ان سے پہلے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اب ایک خاتون گروپ میں ہوں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ دکانیں نہ جھانکیں۔ لیکن انھوں نے صرف قیمتیں نہیں پوچھیں، سووینئیرز خریدنا بھی شروع کردیے۔ میں سامنے کی دکان میں یونہی چیزیں دیکھنے لگا۔ موسی کا مجسمہ دیکھا تو قیمت پوچھی۔ دکاندار نے کہا، پانچ سو ڈالر۔ میں مسکرا کے باہر نکل آیا۔ دکاندار پیچھے آیا اور پوچھا، کتنے میں لو گے۔ میں نے کہا، میرا ارادہ نہیں خریدنے کا۔ یونہی پوچھ لیا۔ اس نے کہا، یہ چیز کہیں اور سے نہیں ملے گی۔ صرف تمھارے لیے ساڑھے تین سو ڈالر۔ میں نے کہا، میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔

اس نے کہا، چلو دو سو ڈالر دے دو۔ میں نے کہا، بھائی تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں یہودی یا مسیحی نہیں ہوں۔ ہم مسلمان بت نہیں رکھتے۔ اس نے کہا، سو ڈالر دو اور لے جاو۔ بالکل مفت سمجھو۔ میں نے کہا، عزیز من، میں پاکستان سے آیا ہوں۔ ہمارے ملک کے کارڈ اسرائیل میں نہیں چلتے۔ اس نے کہا، اچھا مجھے اپنا کارڈ تو دو۔ نہیں چلے گا تو مت خریدنا۔ میں نے بٹوہ کھول کر دیکھا اور اداکاری کی، ارے میں تو اپنے کارڈ ہوٹل ہی میں بھول آیا۔ دکاندار نے کہا، پینتیس سال میں پہلے شخص ہو جو میری دکان سے خالی ہاتھ جارہے ہو۔ میں نے ہاتھ ملاکر کہا، اس بات پر یہ مجسمہ انعام کے طور پر دے دو۔

ایک گلی سے گزرے تو ایک دکان میں بڑے میاں برتن پر نقاشی کررہے تھے۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہ آرمینین کوارٹر یعنی آرمینیوں کا علاقہ ہے۔ لیکن اب یہاں چند سو ہی آرمینی بچے ہیں۔ باقی سب نئے شہر منتقل ہوچکے ہیں۔ آرمینیا کی سیرامکس اور منقش برتن یروشلم کی خاص سوغات ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب صرف تین خاندان ہیں جو یہ کام کررہے ہیں۔ باقی سارا کام جعلی یا مشینی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ بڑے میاں ان میں سے ایک خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ میں نے لاجواب ڈیزائن والے رنگین برتن اور خوبصورت تصاویر والی سیرامکس کا معائنہ کیا۔ پھر ان سے ایک دو آئٹمز کی قیمت پوچھی۔ عام چھوٹی پلیٹ دس بارہ ڈالر کی تھی۔ لیکن جس چیز پر میرا دل آتا تھا وہ ڈیڑھ دو سو ڈالر سے کم کی نہیں ہوتی تھی۔ آخر ان سے معذرت کرکے باہر نکلا کہ بعد میں آوں گا۔

ان گلیوں میں گھومتے ہوئے کئی مسجدیں بھی ملیں۔ یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جب اقصی جیسی مسجد پڑوس میں ہے تو گلی گلی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہیں وہ مسجد الشرفا نظر آئی جسے دیکھ کر کسی نے سوال کیا کہ کیا مسجد بدمعاشاں بھی ہوتی ہے؟

ایک بڑی بی وہیں کہیں گھوم رہی تھیں۔ مسلمان لگ رہی تھیں۔ بندہ نئے ملک جاتا ہے تو خواہ مخواہ رشتے دار ڈھونڈتا ہے۔ میری جو شامت آئی، انھیں سلام کر بیٹھا۔ انھوں نے کہا شیکل۔ پہلے میں نے سوچا کہ کہہ رہی ہیں، پراں مر، اپنی شکل دیکھ، بڑا آیا سلام کرنے والا۔ لیکن پھر ان کی بات پر دھیان دینا چاہا۔ وہ عربی لہجے میں کسی لفظ کی گردان کررہی تھیں۔ میں نے کہا، آئی ڈونٹ انڈراسٹینڈ عربک۔ ڈو یو اسپیک انگلش۔ انگلیسی؟ بڑی بی نے جو بھی کہا، اس کا سادہ الفاظ میں ترجمہ یہ تھا کہ بڑا آیا انگریزی بولنے والا۔ میں کوئی ٹاک شو کررہی ہوں؟ میں تو شیکل مانگ رہی ہوں۔ نکال، کیا ہے تیری جیب میں۔ تب پتا چلا کہ وہ اسرائیلی کرنسی شیکل مانگ رہی تھیں۔ میں نے جیب سے چند سکے نکال کر دیے تو دعا دیے بغیر ایک طرف کو چل دیں۔

ایک ہفتے میں پرانے شہر کا تین چار بار گشت کیا۔ کسی جگہ بھکاری نہیں ملے۔ باقاعدہ کشکول لے کر مانگنے والے صرف مسلم کوارٹر میں دیکھے۔

Check Also

Haram e Pak Se Aik Ajzana Tehreer

By Asif Masood