Aithay e Piya
ایتھے ای پیا
ایتھوپیا کا نام سن کر مجھے ہمیشہ ہنسی آجاتی تھی۔ اس کی وجہ پرائمری کلاس کی ایک یاد ہے۔ میرا کلاس فیلو اسد مہدی افریقا کا نقشہ ڈیسک پر رکھ کر کہتا تھا، ایتھے ای پیا، ایتھے ای پیا۔ اسد مہدی اب خانیوال کا ممتاز وکیل ہے اور لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ موکل کے کیس کی فائل میز پر رکھ کر کہتا ہوگا، ایتھے ای پیا، ایتھے ہی پیا۔
ہمارے پرائمری اسکول ہی کے دنوں میں ایتھوپیا میں بڑا شدید قحط پڑا تھا اور شاید دس لاکھ افراد بھوک سے مرگئے تھے۔ ان یادوں کے ساتھ ایتھوپین ائیرلائن کے طیارے میں گھستے ہوئے خیال آیا کہ پتا نہیں یہاں کھانا بھی ملے گا یا نہیں۔ میں گھر سے چلتے ہوئے انرجی بارز ساتھ رکھ لیتا ہوں۔ سوچا کہ انھیں کھاکر وقت گزار لوں گا۔
ائیربس اے تھری ففٹی اچھا بڑا جہاز ہوتا ہے لیکن اکانومی کلاس تو سب ائیرلائنز کی ایک جیسی ہوتی ہے۔ پھنسی ہوئی سیٹیں اور گلے میں باہیں اور ٹانگوں میں ٹانگیں ڈال کر پڑے ہوئے مسافر۔ لفتھانسا یا برٹش ائیرویز میں بندہ کوئی اچھی امید بھی رکھے۔ ایتھوپین ائیرلائن میں یہ موٹے موٹے بلکہ سنڈے مسٹنڈے مسافروں کے درمیان سیٹ میں فٹ ہونا آسان نہیں تھا۔ مشرق اور مغرب کے پڑوسیوں کی کہنیاں پسلیوں میں گھس رہی تھیں۔ شمال میں آگے بڑھنے کی گنجائش نہیں تھی۔ جنوب میں کمر تلملا کر اکڑ گئی۔
درد سے کراہتے ہوئے میرے منہ سے نکلا، ہائے امی ہائے بابا۔ ساتھ والے انکل نے کہا، جی ہاں، میں بھی ادیس ابابا ہی جارہا ہوں۔
خیر، کھانے کی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ ہر دو گھنٹے بعد فضائی میزبان ٹرالی لڑھکاتے ہوئے آتیں اور کبھی امریکا، کبھی ایتھوپیا اور کبھی بحر اوقیانوس کے معیاری وقت کے مطابق ناشتہ یا کھانا فراہم کرجاتیں۔ کوکا کولا پی پی کر میں چلتا پھرتا سی این جی اسٹیشن بن چکا تھا۔
عرب ملکوں کی ائیرلائنز میں ہالی ووڈ کے علاوہ انڈین فلموں کا بڑا ذخیرہ ہوتا ہے۔ ایتھوپین ائیرلائن میں گنتی کی چھ سات انڈین فلمیں تھیں۔ شکر کہ ان میں روکی اور رانی کی پریم کہانی بھی تھی۔ میں نے یہ فلم پہلے نہیں دیکھی تھی۔ عالیہ بھٹ نے اس میں شاندار اداکاری کی ہے۔ خاص طور پر وہ منظر کمال کا ہے جب وہ بیچ سڑک پر محبت کا اظہار کرتی ہے۔ اس فلم میں جو پیغام دیا گیا ہے، وہ بہت اہم ہے۔ اسے ہندوستان پاکستان میں ہر شخص کو دیکھنا اور سمجھنا چاہیے کہ جدید زمانے کے تقاضے کیا ہیں اور فرسودہ روایات سے پیچھا چھڑانا کس قدر ضروری ہے۔
بیس منٹ کی ایک مختصر فلم دا ون نوٹ مین بھی دیکھی۔ اس میں ڈائیلاگز کے بجائے موسیقی سے کام لیا گیا ہے۔ ہیرو میرے جیسے انکل ہیں اور ہیروئن بھی آنٹی ہیں۔ لیکن فلم آرٹ کا نمونہ ہے جو دیکھنے والوں کو آخر میں جذباتی کردیتی ہے۔
ادیس ابابا پہنچ کر واحد خوشی یہ ہوئی کہ ایک اور براعظم فتح کرلیا۔ ٹرمنل پر گھومتے ہوئے پیاس لگی تو پانی کی چھوٹی بوتل خریدی۔ ڈھائی ڈالر ادا کرتے ہوئے یاد آیا کہ امریکا میں اس سے بڑی بوتل ڈیڑھ ڈالر میں مل جاتی ہے۔ چنانچہ چائے سینڈوچ کا ارادہ ملتوی کیا۔ ویسے بھی تین گھنٹے میں اگلی فلائٹ تھی۔ اتنا صبر کیا جاسکتا تھا۔
ایتھوپیا بھی ہماری طرح ڈوبا ہوا ملک ہے اس لیے آپ پہلی پرواز پر جارہے ہوں یا ٹرانزٹ میں ہوں، دو تین بار سیکورٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں ایک بار پھر میرا پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر ایک طرف بٹھا دیا گیا۔ میں نے بہت کہا کہ میرے پاس ویزا ہے، امریکی گرین کارڈ ہے، ریٹرن ٹکٹ ہے، اس پرواز کا واشنگٹن سے جاری کیا ہوا بورڈنگ پاس ہے، مجھے کیوں روکا ہوا ہے۔ جواب یہی ملا کہ چپکے بیٹھے رہیں۔ ہمارا سوپروائزر آئے گا، وہ اپنا اطمینان کرے گا تو آپ کو جانے دیں گے۔
پھر وہی قصہ ہوا۔ سب مسافر چلے گئے۔ میں ائیرپورٹ پر تماشائے اہل کرم دیکھتا رہا۔ آخر سوپروائزر آیا۔ مجھ سے معذرت کی۔ پاسپورٹ ویزا دیکھا اور جہاز کے دروازے تک چھوڑنے آیا۔
اس بار جہاز چھوٹا تھا۔ اس میں اسکرین بھی نہیں تھی۔ میں نے ٹکٹ نکال کر دیکھا، اس پر ماڈل کا نام پڑھ کر مجھے پھریری آگئی، بوئنگ سیون تھری سیون میکس۔ یہ ماڈل حال میں کئی حادثوں کا شکار ہوچکا ہے۔ صحافی یا باخبر ہونا بعض اوقات کس قدر پریشان کردیتا ہے۔ چار گھنٹے کی پرواز میں وہ سب سورتیں دوہرانا چاہیں جو نانی اماں نے بچپن میں یاد کرائی تھیں۔ لیکن ہر بار بسم اللہ کے بجائے زبان پر انا للہ آجاتا۔
افریقی مسافروں میں ایک عجیب روایت دیکھی۔ جہاز لینڈ کرتا ہے تو سب تالیاں بجاتے ہیں۔ جیسے پائلٹ نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہو۔ ادیس ابابا میں جہاز کے لینڈ کرنے پر سب نے تالیاں بجائی تھیں۔ بس ایک مسافر ہاتھ باندھے ان پر ہنستا رہا۔ یروشلم جانے والے بیشتر اسرائیلی مسافر تھے۔ جہاز نے لینڈ کیا تو سب ہاتھ باندھے بیٹھے رہے۔ ایک باولا مسافر بوئنگ سیون تھری سیون میکس کے بحسن و خوبی اترنے پر تالیاں بجاتا رہا۔