Normalizing Taboos
نورملائزگ ٹیبوز
اور ہم نے لوط کو پیغمبر بناکر بھیجا جبکہ اُنہوں نے اپنی قوم سےکہا تھا کہ کیا تم کھلی آنکھوں دیکھتےہوئے بھی بےحیائی کا یہ کام کرتے ہو؟ کیا یہ کوئی یقین کرنے کی بات ہےکہ تم اپنی جنسی خواہش کے لئے عورتوں کو چھوڑکر مردوں کےپاس جاتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم بڑی جہالت کےکام کرنےوالےلوگ ہو۔ سورت نمل
دو دن تک سوشل میڈیا پر علی سیٹھی اور سلمان طور کی شادی نہ صرف چرچا میں تھی بلکہ ٹاپ ٹرینڈ میں بھی شامل رہی۔
سیٹھی خاندان میڈیا ڈاءنمکس اور اس کے اثرات سے اچھی طرح واقف ہے۔ لعن طعن برداشت کرنے کے باوجود دو دن تک خاموشی اختیار کرنا اور دو دن بعد صرف شادی کی تردید کرنا اور چھ سال سے لونگ ریلیشن شپ میں ساتھ رہنے کے بارے میں خاموش رہنا بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔
دوسری طرف یہ خبر میڈیا میں آنے کے ساتھ ہی غیر ملک میں مقیم لبرل ایکٹو ہوے اور انہوں نے اسے ذاتی فعل کہہ کر ناصرف اس کی حمایت کی بلکہ نئے جوڑے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ جب ان پر تنقید ہوئی تو انوکھی منطق سامنے آ گئی کہ مدرسہ میں مولوی بچوں سے جنسی تعلق قائم کرتے ہیں، مولانا سمیع الحق سینڈوچ مشہور تھے تو کیونکہ مدرسوں میں ہم جنس پرستی ہو رہی ہے تو شادی میں کیا حرج؟
اول تو مدرسے میں ہونے والا واقعہ جبر ہوتا ہے نہ کہ باہمی رضامندی اور دوئم وہ معاشرے کے خوف سے چھپ کے ہوتا ہے، ہونا نہیں چاہیے۔ بچہ مدرسے، سکول، ورک پلیس پر محفوظ ہونے چاہییں لیکن جس طرح ایک مخصوص طبقہ اس کی آڑ میں پیدوفیلیا کو کور دیتے ہوئے سیم سیکس میرج کی حمایت میں رطب السان ہوا، اس سے تو یہ لگتا ہے کہ یہ سب اس گناہ کبیرہ کو معاشرے میں قابل قبول۔ بنانے کی ایک کوشش تھی۔ محترمہ شمع جونیجو تو تمام حدود پار گئیں۔ حمایت کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ میرے بچے الحمد اللہ سٹریٹ ہیں۔ لیکن علی سیٹھی کو اپنی زندگی اپنی خوشی کے مطابق گزارنی چاہیے۔ شاید اسی لیے اسے مبارک باد بھی دے ڈالی اور خوش رہنے کی دعا بھی۔
ایسے لوگوں کو بتانا ضروری ہے کہ حضرت لوطؑ کی زوجہ بھی سٹریٹ تھیں لیکن وہ اس پاس ہونے والے ایسے خلاف شریعت کاموں کی حامی تھیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ لبرل خاتون تھیں اور اس وجہ سے ان کا شمار گناہ گاروں میں ہوا۔
جب اللہ کی کتاب میں محکم آیات میں، واضح الفاظ میں ایک فعل کو حرام قرار دے دیا گیا تو کوئی بھی جواز اللہ سے جنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ آپ دلیل دیں کہ فلاں جگہ، فلاں شہر میں یہ رواج کے طور پر عام ہے تو اسے قبول کر لیا جائے ایسا ہی ہے کہ معاشرے کی برائیوں کو تھوڑی سی لیپا پوتی کرکے قابل قبول سمجھنے لگیں اور نتیجہ اس لفاضی کا یہ ہوگا کہ کچھ عرصہ میں لحاظ، جھجھک ختم ہو کر یہ فعل عام ہو جائے گا۔
جب لوگ "شرعی حد والے گُناہ" بھی، ذاتی فعل کے زُمرے میں لانا شروع کر دیں، تو پھر سمجھ لیں کہ تباہی قریب ہے اور اللہ سے گڑگڑا کر معافی مانگنے کا وقت ہے۔
کیا اس بنیاد پر اپنے بچوں کو بچہ بازی جیسے بھیانک جرم سے نہ بچایا جائے کہ کچھ ماہ پہلے ایک مولوی بچے کے ساتھ یہ قبیح فعل کرتے پکڑا گیا تھا؟ اس کو سیم سیکس میرج کے لیے دلیل بنانے کے بجاے مدرسے، سکول کا ماحول ٹھیک کرنے کی کوشش کیوں نہ کی جاے۔
ایک اور دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ کچھ جانوروں میں بھی ہم جنس پرستی پائی جاتی ہے تو یہ فعل عین فطرت کے مطابق ہے۔ ایسے دانشوروں کو بتانا چاہوں گی کہ حضرت انسان کو اسی لیے اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے تابع نہیں بلکہ ان پر حاکم ہے۔ جانور تو کہیں بھی، کچھ بھی شروع کر دیتے ہیں تو کیا اس معاملے میں بھی ان کی تقلید کی جائے گی؟
کیا مولوی کی کسی غلط کاری کو بنیاد بنا کر پیڈو فائلز کو تحفظ دینا ممکن ہے؟ جو غلط ہے وہ غلط ہے اور اللہ نے جو حرام کر دیا وہ حرام ہے۔ اگر، مگر کی دلیلیں صرف اور صرف اللہ سے جنگ متصور ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اور اللہ کے بتائے راستے پر بنا سوال اٹھائے چلنے کی توفیق دے۔ مولوی اسلام کو پرکھنے کا پیمانہ نہیں۔ عدالتیں، پارلیمنٹ اس ضمن میں اللہ کے احکام کی روشنی میں قانون سازی اور اس کی تشریح کی زمہ دار ہیں ورنہ ان کا فیصلہ قاضی شریح کے امام حسینؑ کے قتل کے فتویٰ کی طرح تاریخ کے کوڑا دان میں جائے گا۔ علی الاعلان گناہ، گناہ کو بڑھاوا دیتا ہے۔ بیشک معاشرے میں ہر گناہ ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود اعلان کرکے گناہ کرنے کی حوصلہ افزائی ناممکن ہے اور اسے گناہ کی پروموشن کے زمرے میں لیا جاے گا۔ گناہ کو نارمل کرنا سب سے بڑا گناہ ہے۔