Aik Ajeeb Subah
ایک عجیب صبح
معمول کے مطابق کالج کیلئے روانہ ہوا۔ لیکن جیسے ہی گیٹ پہ پہنچا ایسا محسوس ہوا، جیسے کچھ ضروری چیز بھول گیا ہوں۔ بہن نے آواز دی بھائی کیا ہوا کیا ڈھونڈ رہے ہو کچھ چاہیے کیا؟ جیب میں دیکھا ضرورت کی ساری سامان موجود تھا۔ نہیں بہن شکریہ سب ٹھیک ہے۔ ہاہاہا کیا ہوا کوئی جن شن دیکھا کیا کیوں ہنس رہی ہو؟ ارے بھائی مجھے معلوم ہے تم کیا ڈھونڈ رہے ہو۔
امی جان اس کمرے میں ہے۔ جا کر ان سے ملو یہ بات سن کر جیسے دل سے کوئی پہاڑ اتر گیا ہو۔ معمول کے مطابق جب میں گھر سے صبح نکلتا ہو تو ماں سے ضرور مل کے جاتا ہوں اور وہ یہ الفاظ بولتی ہے "کہ جا بیٹا اللہ مددگار ہو اور خیریت سے واپس آ جاؤ" خیر جلدی جلدی کمرے کے اندر گیا اور دیکھا امی جان سو رہی ہیں ان کی نیند خراب نہ ہو دیدار کیا اور کمبل ٹھیک کر کے نکل پڑا۔
تھوڑا سا آگے جا کر ایک دوست ملا عمیر کیسے ہو بھائی؟ الحمدللہ بھائی آپ کیسے ہو؟ کرم اللہ کا میں بھی ٹھیک ہو۔ آج اتنا مشکل پیپر اور تم اتنے خوش نظر آ رہے ہو بات کیا ہے۔ ارے یار عمیر دیکھو "جب اللہ کی مدد اور والدین کی دعا ساتھ ہو پھر امتحان چاہے کتنا بھی بڑھے سے بڑھا نہ ہو جیت ہماری ہی ہو گی، ارے کیا بات کیا بات۔
خیر چھوڑو یہ بتاؤ تم آج بھائی کے ساتھ نہیں گئے، گاڑی میں کیا، نہیں ان کا کچھ ضروری کام تھا۔ آج آفس میں اس لیے جلدی نکل گیے، خیر روڈ کے سائیڈ پر کھڑے ہو گئے اور سوزوکی کے انتظار میں کہ اب آ جائے گی شکر ہے ایک گاڑی آ گئی۔ لیکن لوگوں سے لیس تھی۔ اور انتظار بھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ پیپر کے لئے بس چالیس منٹس ہی باقی تھے۔
خیر دوست کو اندر بٹھایا کیونکہ ایک ہی بندے کی جگہ تھی اور میں معمول کے مطابق گاڑی کے ڈالے پر کھڑا ہوگیا۔ بس کالج پہنچنے میں کچھ ہی منٹس باقی تھے" کہ اچانک گاڑی نے دوسری گاڑی کو بچاتے ایک بڑی بریک لگائی اور دیکھتے ہی دیکھتے میں منہ کے بل زور سے سڑک پر گر گیا۔ جب سر کو اٹھایا اور پیچھے دیکھا تو ایک گاڑی تیزی کی سپیڈ سے میری طرف رواں دواں تھی۔
کچھ لمحے کے لیے تو آنکھیں بند کر دی اور کلمہ پڑھنا شروع کیا۔ کیونکہ گاڑی کی سپیڈ جب دیکھی اور فاصلہ بس کچھ ہی گز کے فاصلے پر تھی، پھر اور کچھ سمجھ نہیں آیا۔ خیر ہم اپنی یادوں میں گم ہو گئے اور دیکھا کہ گاڑی آتے آتے آ کر آدھے گز کے فاصلے پر میرے پاس رک گئی چاروں طرف دھواں ہی دھواں اور شور ہی شور تھا۔ سارے لوگ یکدم جمع ہو گئے۔
ڈرائیور بھی آگیا اور بڑی بڑی سانسیں لیتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے آہستہ آہستہ پوچھ رہا تھا کہ کیسے ہو بچے، کس جگہ لگی طبیعت کیسی ہے۔ آ جاؤ ہسپتال چلتے ہیں اور سارے لوگوں کی زبان سے میں یہی الفاظ سن رہا تھا۔ ایک لمحے کیلئے تو مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا ہوا لوگ جمع ہو گئے، میرے جسم کو دیکھا ہڈیوں کو دیکھا، لیکن اسے ایک خروچ تک نظر نہ آئی۔
یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اتنی سپیڈ سے تم گاڑی سے گر گئے، ہم نے وہاں سے دیکھا ہماری تو دل سے جان نکل گئی تھی اور تم صحیح سلامت ہوں ارے یہ ممکن ہی نہیں یہ کوئی معجزہ ہو سکتا ہے۔ دیکھا وہ دوست بھی بھاگتے ہوئے پاس آ گیا۔ کیونکہ جب اس نے دیکھا تھا کہ میں گاڑی سے گر گیا تو وہ بے چارہ بے ہوش ہو گیا تھا۔ خیر جب تمام لوگوں نے دیکھا کہ ہم صحیح سلامت ہے، تو پھر ہم کالج کی طرف رواں دواں ہوئے۔
البتہ اس گاڑی کے ڈرائیور نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ آؤ ہسپتال چلتے ہیں۔ لیکن جسم صحیح سلامت اس لئے اس بچارے کو کیوں تکلیف میں ڈالیں۔ پیپر شروع ہو گیا تھا۔ خیر پیپر کے لئے بیٹھ گئے اور اچانک نظر پڑی تو دیکھا ایک بندہ کمرے کے اندر پریشانی کی حالت میں آ رہا ہے، کمرے کے اندر استاد نے آواز لگائی کے سپرنٹنڈنٹ آ گیا ہے۔
سلام کرو ہم سب نے سلام کیا اور غور سے اس کی طرف نظریں کی تو دیکھا کہ یہ تو وہی گاڑی والا بندہ ہے۔ اس نے بھی جب مجھے دیکھا تو حیران و پریشان ہو گیا اور جلدی جلدی میرے پاس آ گیا، کیا تم یہاں کیسے؟ کیسے ہو؟ طبیعت زیادہ خراب تو نہیں ہے۔ تھوڑی دیر بعد پھر آ گیا اور مجھ سے پوچھنے لگا بیٹے مجھے ابھی تک یقین نہیں ہو رہا کہ تم کیسے بچ گئے؟ ایک نئی زندگی دی ہے اللہ نے تمہیں۔
اچھا مجھے یہ بتاؤ تم ایسا کونسا اچھا کام کرتے ہو زندگی میں؟ سر اور تو کچھ خاص نہیں لیکن جب بھی میں گھر سے نکلتا ہوں، تو ماں کے پاس جاتا ہوں اور ان سے ضرور دعا لے کر نکلتا ہوں، وہ تھوڑی دیر تک چپ رہا، اور پھر آنکھوں میں آنسو آ گئے اور بولا بیٹھے تمہیں پتا ہے یہی کام میں بھی روز کرتا ہوں جب میری ماں وفات پا رہی تھی تو میں نے ان سے پوچھا کہ "امی جان اب مجھے کون دعا دے گا؟"
تو انہوں نے آخری وقت میں اوپر دیکھا اور ہنستے ہوئے میرے لئے اللہ سے دعا کی "کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہر آفت سے بچائے زندگی میں " اور دیکھو آج ہم دونوں ماؤں کی دعاؤں سے ایک بڑے حادثے سے بچ گئے اور صحیح سلامت ہیں۔