Zehni Sehat Ka Aalmi Din
ذہنی صحت کا عالمی دن
10 اکتوبر کو دنیا بھر میں ذہنی صحت Mental Health کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ جس میں سب سے زیادہ پائی جانے والی دماغی بیماریاں ذہنی دباؤ، ڈیپریشن اور شیزو فرینیا ہیں۔ 2002ء میں یہ اندازہ لگایا تھا کہ دنیا بھر میں 15 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ افراد ڈیپریشن کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں چار میں سے ایک شخص کو کچھ حد تک ذہنی صحت کی دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ جبکہ ترقی پذیر ملکوں میں 85 فیصد تک افراد کو دماغی امراض کے کسی علاج تک کوئی رسائی حاصل نہیں۔ وہاں دماغی بیماری کو شرمندگی اور بدنامی سمجھا جاتا ہے۔ اور بد قسمتی سے ہمارا ملک بھی ان ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں ہے جہاں ذہنی بیماریوں کا شعور ہونے کے باوجود لوگ کسی کو بتانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اور کچھ ہمارے عمومی روئیے انہیں ایسا کرنے پہ مجبور کرتے ہیں۔
خدانخواستہ اگر ہمارے رشتے دار میں کوئی ذہنی عارضے میں مبتلا ہے تو ہم بغیر تشخیص کے انہیں پاگل گردان کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ذہنی اور جذباتی مسائل کو عام طور پر دبانے یا چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر بچہ کسی ذہنی الجھن یا مسئلہ کا شکار ہے تو ایسی صورت میں یہ سوچ کر خاموشی اختیار کی جاتی ہے کہ لوگ کیا سوچیں گے ان کا بچہ پاگل ہے یا نفسیاتی مریض ہے۔
ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ذہنی صحت بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی جسمانی صحت۔ ذہنی بیماریاں جسمانی بیماریوں سے زیادہ تکلیف دہ ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نفسیاتی امراض اور ان کی علامات پوشیدہ ہوتی ہیں، جو بیماری کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔ اس وقت ہمارے ملک میں تقریباً 2 کروڑ سے زائد افراد نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں۔
ذہنی صحت ہے کیا؟
ذہنی صحت سے مراد انسان کی نفسیاتی اور جذباتی صحت ہے۔ نفسیاتی صحت درحقیقت ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، جذبات، احساسات اور رویوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ نفسیاتی طور پر صحت مند فرد جہاں روزمرہ زندگی کی سرگرمیوں کو بہتر طور پر سر انجام دے سکتا ہے وہیں وہ ذہنی دباؤ کو بھی بہتر اور مثبت انداز میں ڈیل کر سکتا ہے۔
رویہ کوئی بھی ہو جب بھی وہ حد سے زیادہ تجاوز کرتا ہے تو یہ ہمارے اندر نفسیاتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ اور جب ہم دماغی لحاظ سے خود کو بہتر محسوس نہیں کرتے تو ہم نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جن میں عمومی طور پر ڈیپریشن، فوبیا، ذہنی دباؤ، یہ سارے بہت ہی عام نفسیاتی مسائل ہیں۔ جن سے ہمارا روزمرہ کی زندگی میں واسطہ پڑتا رہتا ہے۔
ذہنی دباؤ (stress) بعض اوقات ہماری زندگیوں میں ایک مثبت کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا جسمانی عمل ہوتا ہے جو ہمیں کسی بھی کام کو کرنے کے لئے انرجی فراہم کرتا ہے۔ مگر یہ تب نفسیاتی مسئلہ بنتا ہے جب ہم de stress ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جب یہ ہمیں مایوس کرتا ہے، ہمارے اندر کے حوصلے کو کم کرتا ہے، ہمارے اندر بےبسی کے جذبے کو ابھارتا ہے اور نا امیدی کو پیدا کرتا ہے۔ یہ کام تو مجھ سے ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ میں کر ہی نہیں سکتا۔ یہ بہت مشکل ہے۔ اس طرح کے خیالات سے یہ ہمارے دماغ کو بھر دیتا ہے اور دماغ کو ایک ہی جگہ روک دیتا ہے۔
یہ ہماری انسانی فطرت ہے۔ اگر ہم دن میں ایک ہی پیغام اپنے دماغ کو بھیج رہے ہیں۔ تو واقع ہی اگر وہ کام آسان بھی ہو تو وہ مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہم مشکل کام کو بھی لے کر کہتے ہیں کوئی نہیں ہو جائے گا۔ میں کر لوں گا۔ زیادہ محنت کرنی پڑے گی اچھے نمبر لینے ہیں۔ دوسروں کو اپنے کام کے ذریعے متاثر کرنا ہے۔ تو وہ کام نہ صرف ہمارے لئے آسان ہو جاتا ہے بلکہ ہمارا دماغ آگے کا لائحہ عمل خود بنانا شروع کر دیتا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں اور اپنے دماغ کو بھی باور کرواتے رہے۔
Nothing is impossible
دنیا میں کوئی کام ناممکن نہیں ہے۔ ہم یہ کر سکتے ہیں اور ہم ہی ہیں جو یہ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ناممکن کا لفظ ہمارے لئے بنا ہی نہیں ہے۔
کئی حکمت عملیاں ایسی ہیں جو آپ کو اچھی ذہنی صحت قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں جیسے کہ مثبت رویہ اپنائے رکھنا، جسمانی طور پر متحرک رہنا، دوسرے لوگوں کی مدد کرنا، مناسب نیند لینا اور صحت بخش غذائیں کھانا۔