Hum Azad Qaum Hain
ہم آزاد قوم ہیں
ستم تو یہ ہے کہ 75 برس کا ہو کے بھی یہ بچہ پاؤں پہ ہم نے کھڑا نہیں ہونے دیا۔ ہاں ہم ایک ایسی آزاد قوم جو ذہنی و دماغی طور پر آج بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ صرف آزاد ہوا میں سانس لے رہی ہے۔ یہ ملک جسے نا جانے کتنوں کے خون سے سینچا گیا۔ کتنے ہی نوجوانوں نے خون کی ہولی کھیلی۔ کتنی ہی ماؤں کی گودیں اجڑیں، کتنی ہی سہاگنوں کے سروں سے سہاگ کی چادر اتری۔ کتنی ہی بہنوں کے بھائی قربان ہوئے اور آج ہم آزاد قوم ہیں۔
ایک ایسی قوم جو اپنی تہذیب و تمدن کو پیچھے چھوڑے مغربی اصولوں پہ خود فریفتہ ہے۔ اپنی پہچان، اپنی زبان اخلاقیات پہ شرمندہ اور پاکستانی ہونے پہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ قوم ذہنی طور پر معذور قوم ہے جو اپنے خیالات کی ترجمانی کرنے کی بجائے دوسروں کے نقش قدم پہ چلنا چاہتی ہے۔ یہ وہ ملک نہیں جس کے لئے اتنی قربانیاں دی گئیں اور نا ہی یہ وہ سرزمیں ہے جس کی مٹی کو خون سے سینچا گیا۔
ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہوں۔ یہ ملک تب ہی ترقی کرے گا جب ہر فرد اپنی ذمہ داری نا صرف قبول کرے گا بلکہ اپنی فرائض احسن طریقے سے سر انجام دے گا۔ یہ ایک اسلامی ملک ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں مغربی جمہوریت کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ جب کہ ہمارے پاس اسلامی ضابطہ حیات موجود ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا دور حلافت اٹھا کر دیکھ لیں۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کسی راہنمائی کی ضرورت ہے۔ ایک حکمران کو کیسا ہونا چاہئے؟
دنیا کبھی بھی حضرت عمر فاروقؓ جیسا حکمران نہیں دیکھے گی۔ ان کا دور فتوحات کا دور کہلاتا ہے۔ عمرؓ خلیفۃ المسلمین ہونے کے باوجود گشت کرتے تھے، رعایا کی خبر گیری میں لگے رہتے، اعمال کی، حکام کی، افسران کی نگرانی کرتے، سرکاری خزانے کی دیکھ بھال اور یہ کہ کہیں بے جا خرچ نہ ہو، حضرت عمرؓ کی عدالت میں صرف اور صرف انصاف ہوتا تھا۔ فاروقی عدالت میں اپنے بیگانے، اعلیٰ ادنیٰ، دوست دشمن اور رشتے ناتے کی کچھ تمیز نہ تھی۔ اپنے بیٹے ابوشحمہ کو شراب نوشی کے جرم میں خود اپنے ہاتھ سے اسی کوڑے مارے، بائیس لاکھ مربع میل پر ان کی حکومت تھی، حسن انتظام کا اعتراف غیروں نے بھی کیا۔
جن مغربی حکمرانوں کو آج ہم اپنا قائد، راہنما تصور کر رہے ہیں دراصل وہ تو ہمارے رہنما ہے ہی نہیں۔ وہ تو صرف اک دھوکہ ہے اور اس دھوکے نے ہمارے سوچنے سمجھنے کی حس کو مفلوج کر دیا ہے۔ آج ہم پستیوں میں گر رہے ہیں تو اس کی وجہ ہمارا اندھا اعتبار ہے جو پاکستانیوں کو مغربی تہذیب کے شکنجے میں باندھے ہوئے ہیں۔ اپنے دماغ کے پیرا شوٹ کھولیں اور دیکھں پھر یہ ملک کتنی اونچی اوڑان بھرتا ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری یہ ہے ہم اسلامی اصولوں کے مطابق طرز زندگی گزاریں۔
یہاں عدل و انصاف ہر خاص و عام کے لیے ہو۔ مگر آج پاکستان میں غریب غربت کی چکی میں پستا ہی جا رہا ہے اور غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ امیر امیر سے امیر تر۔ یہ کیسا نظام ہے ہمارے ملک کا جہاں حکمرانوں کے لیے عدالتیں جب دل چاہا ان کے اشارے پہ کھول دی جاتی ہیں اور عام آدمی سالوں سال انصاف کے لیے عدالتوں کے چکر لگاتا رہتا ہے۔
آزادی کے پچھتر سال بعد اب ہم اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ عزت، مال و جان نہ کل محفوظ تھی نا آج، فرق صرف اتنا ہے تب ہمیں غیروں سے خطرہ تھا اور آج ہمیں اپنوں سے ہی خطرہ لا حق ہے۔ یہاں سے ہی اندازہ لگا لیں کے آج ہم آزاد قوم ہیں۔
ہاں ہم واقعی ہی آزاد ہیں۔ عوام کو بے وقوف بنانے میں۔ عدل و انصاف مانگنے پر۔ قتل و غارت کرنے پر۔ عزتوں کو پامال کرنے پر۔ مانگنے پر۔ نشہ شراب نوشی کو عام کرنے پر۔ اپنی زبان کا قتل عام کرنے پر۔ اپنی تہذیب و روایات کا بیڑا غرق کرنے پر۔
آج ہم آزاد ہیں۔ یہ کیسی آزادی ہے؟ یہ ملک وہ ملک تو نہیں ہے جس کا بابائے قوم نے حاصل کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ جس کا شاعر مشرق نے خواب دیکھا اور نوجوان نسل کو خودی کا درس دیا۔ آپ آزاد ہیں مندروں میں جانے کے لئے، آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے اور پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لئے، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا نسل سے ہو ریاست کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں پہلی تقریر سے اقتباس۔ آج میرے ہی ملک کی نوجوان نسل خودی کو بھلاۓ بیٹھی ہے۔ تعلیمی ادارے آج تفریحی ادارے بن گئے ہیں۔ فرقوں کے نام پہ اسلام پہ بحث اور خون کی ہولی آج بھی کھیلی جا رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے آج ہم ایک آزاد قوم ہیں۔ جب کہ 1900 میں ہم ایک غلام قوم تھی۔
ذرا سوچیں کیا واقعی ہی ہم آزاد قوم ہیں؟