Siasi o Firqa Warana Bheer Chal Aur Fikri Azadi
سیاسی و فرقہ وارانہ بھیڑ چال اور فکری آزادی
ترکیہ کے ایک پہاڑی علاقے کی ایک مشہور داستان ہے جس میں ایک بھیڑ نے پہاڑی سے چھلانگ لگائی اور اس کی دیکھا دیکھی پندرہ سو مزید بھیڑوں نے بھی وہی عمل دہرایا۔ اس دل دہلا دینے والے واقعے میں چار سو پچاس بھیڑیں ہلاک ہوگئیں جبکہ بقیہ بچ گئیں کیونکہ ان کے نیچے لاشوں کا ڈھیر بن چکا تھا۔ اس طرز عمل کو "ہیئرڈ تھیوری" یا "بھیڑ چال" کہا جاتا ہے، جہاں ایک فرد کے عمل کو پورا گروہ بلا سوچے سمجھے اپنا لیتا ہے۔
جانوروں میں یہ رویہ عام ہے کہ وہ بغیر کسی براہ راست ہدایت کے ایک دوسرے کی پیروی کرتے ہیں۔ مچھلیوں کا ایک سمت میں تیرنا، پرندوں کا ایک سمت میں اڑنا یا بھیڑوں کا ایک سمت چلنا اس کی مثالیں ہیں۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ بطور قوم ہم گلگت بلتستان والے بھی گزشتہ ستر سالوں سے اسی ہیئرڈ تھیوری پر عمل پیرا ہیں۔
خاص طور پر جب معاملہ سیاست، مذہب، امن یا بدامنی کا ہو تو ہم بھیڑ چال کی مانند چلتے ہیں اور اپنے اور سماج کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مذکورہ بالا معاملات میں ہمارے نوجوانوں نے ہمیشہ بھیڑ چال سے کام لیا ہے جس کے بڑے نقصانات بھی اٹھائے ہیں۔ ہم مذہبی اس وقت بنتے ہیں جب کوئی اہم مذہبی تہوار سامنے آتا ہے۔ سنی اور شیعہ کا ایمان صرف محرم کے دنوں میں زندہ ہوتا ہے؟ جب بھی یہ خطہ سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے یا فرقہ وارانہ فسادات عروج پر ہوتے ہیں یا پھر امن کی بات آتی ہے تو ہم فوراً ہیئرڈ تھیوری سے کام لیتے ہیں اور ایک شخص کے انفرادی عمل کو دیکھ کر اس کی تقلید کرتے ہیں۔
مہذب معاشروں میں ایسا قطعاً نہیں ہوتا۔ ہر شخص اپنی رائے اور اظہار کا حق رکھتا ہے۔ مذہب یا سیاست کی وجہ سے اپنی انفرادی سوچ کو قدغن لگانا اعلی درجے کی جہالت ہے۔ ہم کب سدھریں گے؟ ہمیں کب شعور آئے گا؟ یہ تو قانون فطرت ہے کہ جو چیز آپ کو اچھی لگتی ہے ممکن ہے وہ مجھے بری لگے۔ کب تلک بھیڑ چال کا سلسلہ جاری رہےگا؟ کبھی تو مثبت اور انفرادی سطح پر رائے رکھیں۔
یقین جانئے، میں نے بھیڑ چال کا یہ منظر حالیہ مہینے گلگت بلتستان میں ہونے والی فرقہ وارانہ لفظی جنگ میں دیکھا ہے۔ دونوں فریقین ایک شخص کے انفرادی عمل پر بضد تھے کہ کیسے اپنی بات منوائی جائے اور کیسے سرخرو ہونا ہے۔ گلگت بلتستان کے نوجوان جب تک مذہبی اور سیاسی بھیڑ چال سے باہر نہیں نکلیں گے زلالت اور خواری ان کی مقدر بنے گی۔
کسی شخص یا چند افراد کی وجہ سے اپنی رائے یا فیصلے کو تبدیل کرنا اپنی سوچ و فکر اور اظہار پر پابندی لگانا ہے۔ آج گلگت بلتستان کے جو حالات ہیں، آج ہم جہاں کھڑے ہیں، یقین جانئے یہ سب اس بھیڑ چال کا نتیجہ ہے۔ من حیث القوم جب تک ہم بھیڑ چال سے باہر نہیں آئیں گے، جب تک ہم تعمیری سوچ کو فروغ نہیں دیں گے، نہ آپ کو آئینی حقوق ملیں گے اور نہ یہ خطہ ترقی کرسکے گا۔
ہمیں اپنی سوچ کو وسیع کرنا ہوگا، اپنی انفرادی رائے کو اہمیت دینا ہوگی اور ہر قدم پر خود مختار سوچ کو فروغ دینا ہوگا۔ تب ہی ہم ایک مہذب اور ترقی یافتہ معاشرہ بن سکیں گے۔ ہمیں ہیئرڈ تھیوری کے چنگل سے باہر نکل کر اپنی انفرادی شعور کی روشنی میں زندگی گزارنی ہوگی۔ یہی ہماری بقا اور ترقی کا ضامن ہے۔
بحیثیت قوم ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ انفرادی شعور اور فکری خودمختاری ہی ہمارے مستقبل کی ضمانت ہے۔ ہمیں تقلید کی اندھی تقلید سے نکل کر اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔ اس جدوجہد میں ہم سب کو مل کر ایک نیا راہ اختیار کرنا ہوگا جو ہمیں بھیڑ چال سے نکال کر فکری آزادی کی طرف لے جائے۔ یہی ہمارا مستقبل ہے، یہی ہماری ترقی کی راہ ہے۔