Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fakhar Alam Qureshi
  4. Maa Ko Taana Nahi Dete, Faqat Gila Karte Hain

Maa Ko Taana Nahi Dete, Faqat Gila Karte Hain

ماں کو طعنہ نہیں دیتے، فقط گلہ کرتے ہیں

پہاڑوں کی بلندی پر کسی کا گرنا فقط جسم کا زمین سے ٹکراؤ نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی نظریات، شکایات اور شکوے بھی اس کے ساتھ گرتے ہیں اور یوں گرتے ہیں کہ زمین بھی کچھ لمحے کے لیے اپنے سینے میں ہلکی سی کپکپاہٹ محسوس کرتی ہے۔

یاور عباس بھی ایک ایسا ہی نام تھا قوم پرستی کے خیمے میں کھڑا وہ شخص جس کے دل میں گلگت بلتستان کی بے بسی سلگتی تھی اور جس کی آواز میں ریاست کے نظم سے اختلاف کا گداز تھا۔ مگر پھر بھی جب بلندی سے اس کا وجود ٹوٹ کر بکھرا تو وہی ریاست جو اکثر اس کی تنقید کا ہدف بنتی رہی، ماں کے روپ میں اسے سینے سے لگانے دوڑی آئی۔۔

24 جون 2025 کی صبح راکاپوشی کی سنگلاخ پہاڑیوں سے گرتی ہوئی ایک چیخ شاید انسانی سماعت سے اوجھل تھی، مگر ریاستی اداروں کے ضمیر نے اسے سن لیا۔ قوم پرست رہنماء یاور عباس کا جسم ٹوٹا اس کا ساتھ چھوٹا اور اس کے نظریاتی سفر کا اختتام ایک چٹان کے دامن میں ہوا۔

اس المناک لمحے میں کوئی فورتھ شیڈول یاد آیا نہ کوئی عدالتی فائل! صرف ایک بے جان جسم تھا، ایک بیٹا تھا اور ماں ریاست تھی جو نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر اپنی مامتا کے فریضے پر نکل کھڑی ہوئی۔ یہ کوئی معمولی کارروائی نہ تھی۔

نگر کی بلندیوں راکاپوشی کے جبر اور موسمی قہر کے سامنے پاکستان آرمی نے جس جانفشانی اور پیشہ ورانہ مہارت سے یاور عباس کے جسد خاکی کو بازیاب کیا، وہ اس جذبے کی آئینہ دار تھی جسے مائیں اپنی ضدی اولاد کے لیے پالتے ہیں۔ جنہیں لاکھ بار سمجھایا جائے جو بارہا ناراض ہوں شکوے کریں، الزام لگائیں، مگر پھر بھی جب کوئی افتاد آ پڑے، تو مائیں پلک جھپکنے سے پہلے آنگن چھوڑ کر دوڑتی ہیں۔

یاور عباس کے چاہنے والوں نے سوشل میڈیا پر اپیل کی اور یہ اپیل سیکیورٹی فورسز کے کمانڈ رومز تک پہنچی۔ کوئی فائل کھولی نہ منظوری لی گئی بس ایک انسانی فریاد پر ردعمل آیا۔ یہاں کوئی ریاستی دشمن نہ تھا، کوئی باغی نہ تھا، فقط ایک شہری تھا جو اب بول نہیں سکتا تھا، مگر اس کی خاموشی بھی مدد کی پکار تھی۔

آرمی ہیلی کاپٹرز فضا میں بلند ہوئے اہلکار چٹانوں پر چڑھے، زخمی ساتھی کو بچایا گیا اور یاور عباس کی میت کو عزت و احترام کے ساتھ اس کے گاؤں پہنچا دیا گیا۔ یہ عمل فقط ایک ریسکیو آپریشن نہ تھا بلکہ ایک علامتی پیغام تھا کہ ریاست نظریات سے لڑتی ہے، افراد سے نہیں اور اگر کبھی لڑنا بھی پڑے تو اس لڑائی کی شدت میں مامتا کا پہلو فراموش نہیں کیا جاتا۔

سول سوسائٹی ہو یا قوم پرست کارکن، جب وہ زخمی ہوں تو پٹی باندھنے والا ہاتھ وہی ہوتا ہے جس پر اکثر انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ یقیناً یاور عباس کی آواز تنقیدی تھی۔ اس کی تحریروں، تقریروں اور خیالات میں ایک کرب جھلکتا تھا، ایک بے چینی جسے وہ لفظوں کے قالب میں ڈھال کر سامعین کے دلوں تک پہنچاتا تھا۔

مگر کیا ماں اپنے ضدی بیٹے سے محبت کرنا چھوڑ دیتی ہے؟ کیا وہ فقط فرمانبردار بچوں کی تیمار داری کرتی ہے؟ یا وہ اپنے ہر بچے کے دکھ میں ایک جیسا تڑپتی ہے؟

پاکستان آرمی نے ثابت کر دیا کہ قومی نظریات کے اختلاف کے باوجود ایک ماں کی طرح ہر بچے کی جان قیمتی ہے، چاہے وہ جتنا بھی نافرمان کیوں نہ ہو۔ لواحقین نے شکریہ ادا کیا مگر شاید اس سے زیادہ شکریہ وہ خاموشی تھی جو یاور عباس کے چہرے پر چھائی ہوئی ہوگی جیسے وہ آخری بار کہہ رہا ہو ماں تم تو آخر میں آ ہی گئی!

یہ سانحہ ہمیں ایک آئینہ دکھاتا ہے۔ ایک طرف ریاستی ادارے اپنی ذمہ داری نبھاتے دکھائی دیتے ہیں، دوسری طرف معاشرہ اختلاف کو دشمنی میں بدلنے پر تلا رہتا ہے۔ ہمیں بطور باشعور شہری یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ نظریاتی تنقید ریاستی پالیسیوں پر اختلاف اور شفافیت کا مطالبہ ہمارا حق ہے، مگر اس اختلاف کو اس نہج پر نہ لے جائیں کہ کل کو ہماری ماں شرمندگی سے نظریں جھکا لے۔

ریاست ماں ہے کبھی سخت کبھی نرمی سے لبریز، مگر ہمیشہ سینہ کشادہ رکھتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اختلافات کو مہذب، اصولی اور تعمیری رکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے الفاظ دشمن کے ہتھیار بن جائیں اور کل کو جب ہمیں خود اس ماں کی مدد درکار ہو تو ہماری اپنی تلخیاں آڑے آ جائیں۔

یاور عباس اب نہیں رہے مگر ان کا سفر ہمیں ایک سبق دے گیا۔ یہ سبق کہ ریاست سے گلہ جائز ہے شکایت بھی، مگر طعنہ نہیں۔ کیونکہ ماں (ریاست) کو طعنہ دینا محبت کا انکار ہوتا ہے اور جب محبت انکار سے گزر کر فنا کے دہانے تک جا پہنچے، تو پھر صرف ایک آنسو بچتا ہے ماں کے آنکھ میں اور وہی آنسو ریاست کے رخسار پر تھا، جب اس نے یاور کو واپس لانے کے لیے پہاڑوں سے نبرد آزما ہوا۔۔

رب کائینات سے ہمہ وقت دعاگو ہوں کہ یاور عباس کی اگلی منزل آسان کردے۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail