Gilgit Baltistan Ke Janglat Ka Tahaffuz
گلگت بلتستان کے جنگلات کا تحفظ
ایک طرف جہاں پوری دنیا موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے شعور و آگاہی مہمات اور بڑے پیمانے پر سیمینارز منعقد کررہی ہے، وہیں پاکستان میں گلگت بلتستان کے جنگلات کو حکومتی عدم توجہی اور بدعنوانی کے سبب بے دردی سے کاٹا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر بھی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ جنگلات کے تحفظ کے بغیر موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانا ممکن نہیں۔
عمران خان کے دور حکومت میں بلین ٹری منصوبے کا آغاز ہوا، جو ایک امید افزا اقدام تھا۔ مگر بدعنوان وزراء، نااہل ادارے اور مقامی کمیونٹی کی ملی بھگت سے یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ گلگت بلتستان خاص طور پر ضلع دیامر میں قدرتی جنگلات کی کٹائی ایک معمول بن چکی ہے۔ یہ ضلع نہ صرف جنگلات کی وسعت کے لیے مشہور ہے بلکہ چلغوزے کی پیداوار میں بھی نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ دیامر کو ملکی سطح پر چلغوزے کی دوسری بڑی منڈی کا اعزاز حاصل ہے، اور سالانہ اربوں روپے کا چلغوزہ یہاں سے چائنہ برآمد کیا جاتا ہے، جس سے پاکستان کو کروڑوں روپے ٹیکس کی مد میں حاصل ہوتے ہیں۔
دیامر میں چلغوزے کے درخت کثرت سے پائے جاتے ہیں، مگر حکومت کی نااہلی اور عدم توجہی سے یہ قیمتی خزانہ بھی آہستہ آہستہ زوال پذیر ہورہا ہے۔ مقامی لوگوں کی جانب سے سالانہ بے دردی سے سینکڑوں درخت کاٹ دیے جاتے ہیں، اور حکومتی سطح پر مزید شجرکاری یا روک تھام کے بجائے حکومتی پرمٹ جاری کیے جا رہے ہیں اور ان لکڑیوں کو نہ صرف راولپنڈی بلکہ لاہور تک سمگل کیا جاتا ہے، جو محکمہ جنگلات اور موٹروے پولیس کی ملی بھگت کا ثبوت ہے۔
گلگت بلتستان کی موجودہ صوبائی حکومت نے خود وفاقی حکومت سے جنگلات کی ڈیفارسٹیشن کے لیے ورکنگ پلان کی منظوری کروائی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور سمگلنگ میں حکومتی وزراء اور محکمہ جنگلات کے عملے کی ملی بھگت شامل ہے۔ ہر سال وفاقی حکومت جنگلات کے تحفظ اور شجرکاری کے لیے کروڑوں روپے فنڈز مختص کرتی ہے، مگر یہ فنڈز بدعنوانی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ فاریسٹ ریجنریشن فنڈ کے نام پر جاری کیے جانے والے کروڑوں روپے کہاں استعمال ہوتے ہیں، کسی کو کچھ خبر نہیں۔ نہ کوئی آڈٹ ہوتا ہے نہ کوئی پوچھ گچھ۔
وفاقی حکومت کو اس سنگین مسئلے پر سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے۔ جنگلات کی کٹائی اور سمگلنگ پر قابو پانے کے لیے جدید اصلاحات کی ضرورت ہے، تاکہ گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ کو ہدایات جاری کی جا سکیں اور اس قیمتی اثاثے کا تحفظ ممکن ہو سکے۔ چلغوزے کے درختوں کی حفاظت اور ان کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بھی مثبت اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔ جنگلات کی بے رحمانہ کٹائی کے نتیجے میں گلگت بلتستان بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں۔ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، دریاؤں کی تہہ بڑھ رہی ہے، پانی کی قلت اور سیلابوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پانی کے بہاؤ میں ناقابل یقین حد تک کمی آئی ہے، جو کہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے اس دور میں جنگلات کا تحفظ نہایت ضروری ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ محکمہ جنگلات میں جدید اصلاحات لا کر اس بے دریغ کٹائی پر قابو پانے کے لئے وزیراعلی گلگت بلتستان کو ہدایات جاری کریں تاکہ اس قیمتی اثاثے کا تحفظ ممکن ہو سکے اور چلغوزے کے درختوں کی حفاظت سمیت ان کی پروڈکشن کو بڑھانے اور مارکیٹ تک پہنچانے کے لئے مثبت اقدامات کریں۔ گلگت بلتستان کے جنگلات کا تحفظ نہ صرف مقامی معیشت بلکہ قومی مفاد کے لئے بھی ضروری ہے۔ جنگلات کی کٹائی اور سمگلنگ پر قابو پانے کے لئے مربوط اور موثر حکمت عملی اپنائی جانی چاہئے تاکہ مستقبل میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جا سکے اور ملک کی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔
جنگلات نہ صرف ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ یہ قدرتی وسائل اور معیشت کے لئے بھی اہم ہیں۔ جنگلات کی کٹائی سے نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بڑھتے ہیں بلکہ جنگلی حیات کی پناہ گاہیں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔ جنگلات کا تحفظ ایک قومی ذمہ داری ہے اور اس کے لئے تمام متعلقہ اداروں کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ جنگلات کے تحفظ کے لئے خصوصی قوانین بنائے اور ان پر سختی سے عمل درآمد کرائے۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے جنگلات کی نگرانی کی جائے اور مقامی کمیونٹی کو بھی اس کام میں شامل کیا جائے۔ اس کے علاوہ جنگلات کی بحالی کے لئے مزید شجرکاری کی مہمات چلائی جائیں اور عوامی شعور بیدار کیا جائے۔
گلگت بلتستان کے جنگلات کا تحفظ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لئے اہم ہے۔ جنگلات کے بغیر موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانا ممکن نہیں اور اس کے لئے تمام متعلقہ اداروں کو مل کر کام کرنا چاہئے تاکہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر ماحول فراہم کیا جا سکے۔ یہ قومی و عالمی مسئلہ ہے اور اس کے حل کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ جنگلات کا تحفظ ہماری بقا کے لئے ضروری ہے اور اس کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جانے چاہئیں۔