Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fakhar Alam Qureshi
  4. CPEC Ka Ibtidai Darwaza

CPEC Ka Ibtidai Darwaza

سی پیک کا ابتدائی دروازہ

چین اور پاکستان کے درمیان تعلق صرف سفارتی تعلقات یا بین الاقوامی معاہدات تک محدود نہیں بلکہ یہ دوستی باہمی اعتماد اقتصادی اشتراک، ثقافتی ہم آہنگی اور خطے کے مشترکہ مستقبل کے خواب کی مجسم تصویر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری جسے ہم CPEC کے نام سے جانتے ہیں، نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان ایک عظیم الشان منصوبہ ہے بلکہ یہ ایک ہمہ جہت انقلابی تصور ہے جو پورے جنوبی ایشیائی خطے کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس خواب کی تعبیر کا پہلا دروازہ گلگت بلتستان ہے جہاں سے یہ راہداری پاکستان کی سرزمین میں داخل ہوتی ہے۔ گویا یہ خطہ سی پیک کا ابتدائی نقطہ، پہلا مرحلہ اور اولین ترجیح ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس دروازے کی حفاظت کیلئے کوئی منصوبہ بندی کی ہے؟ کیا ہم نے اس خطے کے باسیوں کو اس منصوبے کا حقیقی شریک بنایا؟

گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے لیے سی پیک صرف معاشی نہیں بلکہ تہذیبی، تعلیمی اور ثقافتی امکانات سے بھرپور موقع ہے۔ یہ صرف روزگار کی فراہمی کا منصوبہ نہیں! بلکہ خودانحصاری، جدیدیت اور فکری بیداری کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کے نوجوان محض تماشائی نہ بنیں بلکہ علم، ہنر اور عزم کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر خود کو اس جدت آفریں سفر کا فعال کردار بنائیں۔

حالیہ دنوں میں چین نے سی پیک کے دوسرے مرحلے یعنی CPEC 2.0 کے آغاز کا اعلان کیا ہے، جو صنعت، زراعت، سائنس اور ٹیکنالوجی جیسے شعبہ جات میں تعاون کو فروغ دینے کی نوید سناتا ہے۔

یہ مرحلہ صرف انفراسٹرکچر پر نہیں بلکہ انسانی وسائل پر مرکوز ہے۔ یہاں گلگت بلتستان کے نوجوانوں کی ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ وہ چینی زبان سیکھیں، ٹیکنیکل تعلیم حاصل کریں اور اپنے علاقے کے معدنی، زرعی اور سیاحتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے قومی ترقی میں اپنی موجودگی کو ناگزیر بنا دیں۔

مگر ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ سی پیک کی کامیابی کا راستہ محض سڑکوں، پلوں اور توانائی کے منصوبوں سے نہیں گزرتا۔ اس کے لیے اندرونی استحکام، قومی یکجہتی اور سب سے بڑھ کر امن کا قیام ناگزیر ہے۔

امن کے بغیر سی پیک کا تصور ایک خالی خول ہے۔ بدقسمتی سے کچھ بیرونی طاقتیں جو پاکستان کے ترقی یافتہ، خودمختار اور مستحکم مستقبل کو برداشت نہیں کر سکتیں، مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے اس راہداری کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔

دہشت گردی، فرقہ واریت، قوم پرستی اور سیاسی عدم استحکام کو بطور ہتھیار استعمال کرکے سی پیک سمیت پاکستان کے پورے اقتصادی ڈھانچے کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ جب تک ریاست سیکیورٹی ادارے، مقامی قیادت اور عوام باہمی اتحاد اور اعتماد کے ساتھ ان عناصر کا مقابلہ نہیں کرتے، تب تک سی پیک صرف ایک نقشہ ایک تصور یا ایک نعرہ ہی رہے گا۔ لہٰذا سیکیورٹی کو اولین ترجیح دیتے ہوئے خاص طور پر گلگت بلتستان جیسے حساس اور جغرافیائی لحاظ سے کلیدی علاقے میں ریاستی رٹ کو مضبوط کرنا لازم ہے۔

چین کی جانب سے حالیہ دنوں میں 3.7 بلین ڈالر کے کمرشل قرضوں کی ری فنانسنگ کی یقین دہانی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ بیجنگ نہ صرف پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے بلکہ وہ ہماری معاشی بحالی میں حقیقی شراکت دار بھی بننا چاہتا ہے۔

اب یہ پاکستان بشمول گلگت بلتستان کی قیادت اور نوجوان نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مواقع کو صرف وقتی سہولت سمجھنے کے بجائے انہیں ایک طویل المیعاد ترقیاتی وژن میں ڈھالیں۔

گلگت بلتستان میں سی پیک کے تحت متعدد ترقیاتی منصوبے زیر تکمیل ہیں جن میں سڑکوں کی تعمیر توانائی کے مراکز اور صنعتی زونز شامل ہیں، جو اس خطے کے لیے روزگار، تعلیم اور کاروباری مواقع کے نئے در وا کرتے ہیں۔ مگر ان منصوبوں کی روح تبھی بیدار ہوگی جب مقامی نوجوان اپنی صلاحیتوں کو نکھار کر ان میں شامل ہوں گے۔

سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے کا اعلان دراصل ایک معاشی جغرافیہ کی تشکیل نو ہے، جس سے وسطی ایشیا تک پاکستان کی رسائی ممکن ہو سکے گی۔ یہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے لیے ایک اور در وا کرتا ہے جہاں وہ علاقائی تجارتی سرگرمیوں میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

یہ امر بھی اہم ہے کہ گلگت بلتستان کی حقیقی ترقی کا دار و مدار سی پیک میں اس کی فعال شمولیت پر ہے۔ صرف سڑکوں کا جال یا صنعتی زونز اس خطے کے عوام کی تقدیر نہیں بدل سکتے جب تک کہ یہاں کے نوجوان خود کو اس منصوبے کے فکری تعلیمی اور انتظامی دھاروں میں شامل نہ کریں۔

آخر میں گلگت بلتستان کے باسیوں سے گزارش ہے کہ وہ سی پیک کو صرف ایک معاشی منصوبہ نہ سمجھیں بلکہ اسے قومی عزت، خودمختاری اور ترقی کا سنگ میل سمجھتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔ اس منصوبے کی کامیابی نہ صرف ان کی ذاتی بلکہ ان کی آئندہ نسلوں کی زندگی کو بہتر بنانے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

تعلیم، مہارت، قومی شعور اور اتحاد کے ساتھ ہم سب کو اس راہداری کو کامیاب بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، تاکہ آنے والی نسلیں ایک خوشحال، مضبوط اور پرامن پاکستان کی فضا میں سانس لے سکیں۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali