Aalmi Taqaton Ka Agla Markaz?
عالمی طاقتوں کا اگلا مرکز؟

دنیا کے نقشے پر اگر کوئی خطہ بیک وقت پانچ ایٹمی ریاستوں، تین بڑی عالمی معیشتوں اور دو متصادم تہذیبی نظریات کے درمیان واقع ہو، تو اس کی جیوپولیٹیکل اہمیت محض جغرافیائی نہیں رہتی، بلکہ عالمی طاقتوں کے سینٹر آف گریویٹی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
گلگت بلتستان ایسا ہی ایک سنگم ہے ایک ایسا پل جو ایشیا کے دل کو چین، بھارت، وسطی ایشیا، افغانستان اور پاکستان سے جوڑتا ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جو محض قدرتی حسن یا معدنی ذخائر کا خزینہ نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان ابھرتی ہوئی سرد جنگ کا اگلا میدان کشمکش بنتا جا رہا ہے۔
تاریخی طور پر گلگت بلتستان وہی خطہ ہے جہاں برطانوی راج نے Great Game کے نام پر روسی اثر و رسوخ کے خلاف حفاظتی دیوار کھڑی کی تھی۔ آج وہی تاریخ ایک نئی شکل میں خود کو دہرا رہی ہے جہاں امریکہ، چین کے خلاف عالمی اسٹریٹجک بساط پر گلگت بلتستان کو بطور مہرہ استعمال کرنے کی خواہش رکھتا دیکھائی دے رہا ہے۔
چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) اور اس کے تحت بننے والی چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) درحقیقت گلگت بلتستان کے راستے ہی سے گزر کر گوادر سے جا ملتی ہے اور یہی راستہ چین کے زمینی تجارتی مستقبل کی شہ رگ ہے۔ اسی لیے امریکہ کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ وہ گلگت بلتستان میں امریکی انٹیلی جنس یا اسٹریٹجک مشن کی راہ ہموار کرے تاکہ چین کے اس زمینی نیٹ ورک پر نظر رکھی جا سکے۔
عسکری اور تزویراتی حلقوں میں اب گلگت بلتستان محض ایک سرحدی علاقہ نہیں بلکہ ایک Global Pivot بن چکا ہے جسے کنٹرول کرنا جنوبی ایشیا میں اثر و رسوخ قائم کرنے کی کنجی ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں گلگت بلتستان میں غیر معمولی غیر ملکی دلچسپی دیکھی گئی۔
چاہے وہ دیوسائی کی اسٹریٹجک اہمیت ہو سیاچن گلیشیئر کے آس پاس کا جغرافیہ یا پھر قراقرم ہائی وے کا ہر موڑ یہ سب عالمی عسکری و سفارتی نقشوں میں سرخ نشان کے طور پر ابھرتے جا رہے ہیں۔ تاہم ان تمام جیو پولیٹیکل پیش رفتوں کے بیچ ایک کڑوی حقیقت وہ ہے جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور وہ ہے گلگت بلتستان کے عام عوام کے روزمرہ مسائل۔
آج بھی یہاں بنیادی صحت، تعلیم، صاف پانی، روزگار، بجلی اور انٹرنیٹ جیسی سہولیات کا فقدان ہے۔ جب خطہ عالمی بساط کا مرکز بن چکا ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہاں کے عوام کے بنیادی حقوق کو بین الاقوامی ترجیحات کے نیچے کیوں دفن کیا جا رہا ہے؟
گلگت بلتستان کے لوگ فرقہ واریت، علاقائی منافرت اور اقتصادی پسماندگی کے سنگین چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں۔ کبھی ذاتی مفادات کے تحت مسلکی منافرت بھڑکائی جاتی ہے، تو کبھی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے عوام کو دیوار سے لگایا جاتا ہے۔
ریاستی حکمت عملی میں اگر حقیقی قومی سلامتی کا تصور موجود ہو تو گلگت بلتستان میں پائیدار امن، عدل اور تعمیر و ترقی کو مقدم رکھنا ہوگا۔ کیوں کہ ایک غیر مطمئن غیر مربوط اور غیر ترقی یافتہ خطہ کسی بھی عالمی اسٹریٹجک ویژن کا مستقل اثاثہ نہیں بن سکتا۔
پاکستان کی مقتدر قوتوں کو اس خطے کو صرف اسٹریٹجک لینز سے نہیں بلکہ انسانی، معاشی اور ثقافتی تناظر میں بھی دیکھنا ہوگا۔ ریاست کو یہاں فوری طور پر ایک جامع گلگت بلتستان پبلک ویلفیئر پیکج کا اعلان کرنا چاہیے جس میں ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ، جدید تعلیم، مقامی روزگار اور نوجوانوں کو قومی امور اور سالمیت بارے تربیت دینے کے پروگرام شامل ہوں۔
ساتھ ہی ایک انسداد فرقہ واریت کمیشن قائم کرکے ریاستی و غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی سے آزادانہ تحقیقات کی جائیں تاکہ فرقہ وارانہ فسادات کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امن اور ترقی ہی وہ حقیقی اسلحہ ہے جس سے ہم عالمی طاقتوں کی چالاکیوں کو مات دے سکتے ہیں۔
اگر گلگت بلتستان کے عوام خود کو محروم اور نظر انداز شدہ محسوس کرتے رہے تو بیرونی قوتوں کے لیے دراندازی کے مواقع خود بخود پیدا ہوتے رہیں گے۔
ریاست کو سمجھنا ہوگا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو صرف بلند و بالا نعروں حب الوطنی کے جذباتی تقاضوں یا عسکری پراجیکٹس کے وعدوں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات شفاف طرز حکمرانی اور مساوی حقوق سے مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ گلگت بلتستان کو امن کا خطہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کی محرومیوں کو قومی ایجنڈے کا مرکز بنایا جائے۔
جب تک گلگت بلتستان کے نوجوان ہاتھ میں قلم کی جگہ شکایتوں کی فہرست اور دل میں فخر کی جگہ احساس محرومی لیے پھرتے رہیں گے، تب تک یہ خطہ عالمی طاقتوں کے لیے محض ایک شطرنج کا تختہ بنا رہے گا۔
ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس خطے کو خودمختار ترقی کا نمونہ بنانا چاہتے ہیں یا اسے دوسروں کے ہاتھوں استحصال کا میدان چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔

