Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Faisal Ramzan Awan
  4. Hosla Afzai Ya Hosla Shikni

Hosla Afzai Ya Hosla Shikni

حوصلہ افزائی یاحوصلہ شکنی

علم وادب سے دلچسپی کی وجہ سے نامور شعرا مصنفین اور کالم نگاروں کو اکثر پڑھنے کا موقع بھی ملتا رہتا ہے اور گاہے بگاہے کچھ سے مراسم بھی ہیں رابطہ بھی رہتا ہے۔ اسی دلچسپی کی تلاش میں کل مجھے ایک سنئیر کالم نگار مصنفہ اور شاعرہ کا ایک مفصل کالم پڑھنے کو ملا۔ محترمہ نے کالم نگاری بارے اپنے تجربات کو صفحہ قرطاس کی نذر کیا۔ وہ لکھتی ہیں کہ اخبارکے پینل پر لکھنے والے کالم نگار تو لکھ سکتے ہیں اور کالم نگار کہلائے جاسکتے ہیں لیکن کبھی کبھی شوقیہ اس میدان میں اترنے والے فنکار بھی اپنے آپ کو کالم نگار کہلواتے ہیں۔

ان کا پورا کالم انتہائی دلچسپ تھا لیکن فنکار تک پہنچتے پہنچتے میں رک گیا اور سوچنے لگا کہ یہ فنکار کا لفظ مجھ پر بھی پورا اتر رہا ہے۔ بظاہر انہوں نے ایسے سب لوگوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا لیکن یقین کریں ان کی تحریر میں مجھے طنز کا تیر تو مارا گیا لیکن مجھے ذرا بھر بھی تکلیف نہ ہوئی۔ فنکار جیسے طنزیہ لفظ کو پڑھ کر بھی مجھے کچھ برا نہ لگا اس کی وجوہات کیا ہوسکتی ہے کہ یہ سب مجھے برانہ لگا ذیل میں ان مسائل کا تفصیلا ذکر کرنے کی کوشش کروں گا شاید محترمہ اتفاق کرلیں۔

ویسے آج کل کچھ اخبارات کے ایڈیٹر مجھے باقاعدہ کالم بھیجنے کا بھی کہہ چکے ہیں لیکن میں ہر دفعہ معذرت کرلیتا ہوں کہ جن مسائل کا میں سامنا کررہا ہوں ان حالات میں باقاعدگی سے لکھنا میرے لئے مشکل کام ہوگا اور مینوں ووٹ وکھا میرا موڈ بنڑے (معذرت کے ساتھ)۔ اس شعر کا مصرعہ بھی پورا اتفاق نہیں کررہا ہے توبندہ کیسے باقاعدگی سے اس تسلسل کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ لکھنے کے لئے اپنے خیالات کو اور اس تخلیق کے جذبات واحساسات کے الاؤ کو روشن کرنا پڑتا ہے تبھی الفاظ آپ کا ساتھ دیتے ہیں۔

اس دوران اس کیفیت کے سامنے کوئی اور طاقتور مسئلہ کھڑا ہوگیا تو آپ کی پوری تحریر دھڑام سے آپ کے جذبات و احساسات کو ماند کردے گی اور آپ کی بس ہوجائے گی۔ بنیادی طور پر آپ اپنے خیالات سے تبھی لفظ ڈھونڈ سکیں گے جب آپ کو تازہ دم ماحول میسر آئے گا۔ اگر آپ کا تعلق ہی کسی دور افتادہ اور پسماندہ ترین علاقے سے ہوگا تو یہ کبھی کبھار لکھنا بھی غنیمت ہوگا بلکہ اس گھٹن زدہ اور محرومیوں میں گھرے اس مسائلستان میں جینا بھی آپ کے لئے باعث صدافتخار ہوگا۔ میں کسی اور کی کیسے وکالت کروں کیا دلائل دوں میں تو اپنا ہی ذکر کروں گا کیونکہ مذکورہ کالم نگار نے یوں سمجھئیے کہ فنکار جیسے لفظ سے عزت افزائی خالصتا میرے لئے کی ہے۔

کاش کسی روز آپ بڑے شہر سے نکل کر کبھی دوردراز میرے گاؤں آئیں یہاں کی گلیوں کو پختہ کرنے کے لئے جب قومی خزانے سے فنڈ بہائے گئے تو تب جہاں جو گلیاں ضروری تھیں نہیں بنائی گئیں۔ میرے گاؤں میں میرے گھر تک آنے کے لئے کبھی آپ برسات کے موسم میں آجائیں تو آپ جوتوں سمیت کبھی بھی نہ پہنچ پائیں۔ اس کیچڑ میں کھب جائیں جوتے ادھر ہی رہ جائیں گے گھر تک پہنچتے پہنچتے آپ ننگے پاؤں ہونگی۔ اگر میں اس گلی کے لئے کبھی اپنے تذکرے میں ذکر کردوں تو آپ کو میری حوصلہ افزائی کرنا ہوگی نہ کہ حوصلہ شکنی۔

یہاں آکر اللہ نہ کرے آپ بیمار پڑجائیں تو دور سرکاری ہسپتال سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا آپ بے شک ہسپتال جائیں لیکن آپ کو ہر کوئی اپنے ذاتی کاموں میں مصروف ملے گا۔ ڈاکٹر صاحب موبائل سے فارغ ہوئے تو شاید آپ کو دیکھ لیں گے لیکن دوائی آپ نے باہر سے اپنے پیسوں سے ہی لینی ہے۔ آپ ایسا نہیں کریں گی تو یہاں اتائیوں کی دکانیں موجود ہیں آپ وہاں سے مہنگوں داموں زہر خرید سکتی ہیں۔ یہ زہر کھاکر بھی آپ نے جینا ہے کیونکہ اس کے علاوہ آپ کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں اگر ان مسائل میں گھرے ایک قلم کار کو کبھی قلم اٹھانے کا موقع مل جائے اور وہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کبھی الفاظ جوڑ کر کچھ لکھ لےتو اس کو طعنہ نہ دیں بلکہ اسے شاباش دیں تاکہ وہ معاشرے میں پھلیتے اس ناسور کے خاتمے کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھ سکے۔

آئیں آپ کو ان تعلیمی اداروں میں لے چلیں جہاں پڑھنا لکھنا صرف سن رکھا حقیقت میں یا عملی طورپر یہاں بالکل تعلیم نہ ہونے کے برابر ہو پورا نظام تعلیم تباہ کردیا گیا ہو بلکہ ظلم دیکھیں۔ میرے گاؤں میں ایک ایسا اکلوتا گرلزہائی سکول بھی ہے جس میں سرے سے ہائی سکول کی ٹیچرز ہی نہیں ہیں لیکن بچیاں اس سکول میں حصول تعلیم کے لئے معمول کے مطابق جارہی ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ یہ خبریں رپورٹرز کے لئے ہیں وہ ان مسائل کو ہائی لائٹ کریں لیکن جب یہاں ہر طرح کا قحط ہو تو بتائیں بندہ کیا کرے کیا کبھی اپنے تذکروں میں ایسا ذکر ہی نہ کرے۔

جب یہاں ماحول ہی ایسا بنا دیا گیا ہو تو خیالات کے الاؤ کو ہردم کیسے روشن رکھا جاسکتا ہے ان مشکلات میں گھرے ہوئے ایک عام سے قلم کار کو جس کو شاید اپنے گاؤں میں بھی کوئی نہ جانتا ہو اسے فن کار کہنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ اخبارات کے ادارتی صفحات پر گر کبھی کبھار کوئی کالم آجائے اور اتنی مشکلات کے باوجود اگر کسی نے قلم تھاما ہوا ہے تو میرے خیال میں اس کی حوصلہ افزائی کرنا چاہئیے حوصلہ شکنی کے لئے ایسے لوگوں کے اردگرد بہت سے مافیا نے سراٹھایا ہوا ہوتا ہے۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari