Friday, 21 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Faisal Nouman
  4. Manfi Soch, Aik Moozi Marz

Manfi Soch, Aik Moozi Marz

منفی سوچ، ایک موذی مرض

جب سے انسانی نسل کرہ ارض پر پھیلی ہے تب سے اسے کئی بیماریوں کا سامنا ہے جیسے کہ ان میں سے ایک کینسر ہے جو ایک مہلک مرض سمجھا جاتا ہے، جو کئی دہائیوں کی تحقیق اور محنت کے بعد کسی حد تک قابل علاج ہوا ہے۔ مگر جہاں کینسر جسمانی طور پر صرف ایک فرد کو متاثر کرتا ہے، وہیں ایک ذہنی مرض اور بیماری ایسی بھی ہے جو نہ صرف ایک فرد بلکہ پورے ماحول اور معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، یہ بیماری "منفی سوچ" ہے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں ایک شخص تھا جو ہر بات میں نقص نکالتا اور دوسروں پر شک کرتا تھا۔ جب گاؤں میں مدرسے کی تعمیر کے لیے چندہ اکٹھا ہوا، تو سب نے اپنی حیثیت کے مطابق عطیہ دیا۔ مگر جب اعلان ہوا کہ سب سے زیادہ چند فلاں شخص نے دیا ہے، تو اس نے افواہ اڑا دی: "وہ کمیٹی کے پیسے چرانا چاہتے ہیں! " یہ خبر پھیلتے ہی لوگوں میں بدگمانی پیدا ہوگئی، منصوبہ رک گیا اور لوگ زیادہ چندہ دینے والے شخص کو برا بھلا کہنے لگے۔ لوھوں نے اپنا چندہ واپس لے لیا، مدرسہ نہ بن سکا اور گاؤں کے لوگ تقسیم ہو گئے۔ یوں ایک شخص کی منفی سوچ نے پورے گاؤں میں بدامنی پھیلا دی۔

ہمارے آس پاس جو بھی بے چینی، عدم برداشت اور شدت پسندی نظر آرہی ہے یہ اسی ہماری منفی سوچ کے نتائج ہیں مگر سوال یہ ہے کہ یہ سوچ پیدا کہاں سے ہوتی ہے؟ اس کی وجوہات کیا ہیں اور یہ اتنی تیزی سے کیسے پھیلتی ہے؟ میری نظر میں جو سب سے پہلی وجہ ہے جہاں سے یہ سوچ پیدا ہوتی ہے وہ ہے انسان کی بری صحبت۔ انسان کی سوچ پر اس کی صحبت کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ ہماری محفلیں، دوست اور سوشل سرکل ہماری فکر اور رویے کو تشکیل دیتے ہیں۔ جیسا کہ نفسیاتی تحقیق میں "سماجی شناخت کے نظریے" کے مطابق، ہم اپنی شناخت کا بڑا حصہ ان گروہوں سے اخذ کرتے ہیں جن سے ہمارا تعلق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہماری صحبت منفی خیالات اور رجحانات کی حامل ہو تو ہم بھی ویسے ہی سوچنے لگتے ہیں۔ اس لیے وہ ضرب المثل عام ہے کہ "اچھے سنگ ترے"۔

جو دوسری بڑی وجہ ہے اسکا اندازہ ہم سب کو ہوگا اور وہ ہمارا میڈیا اور انٹرنیٹ ہے اس دور میں جو سب سے مستند ذریعہ ہے ہماری سوچوں کو بدلنے کا وہ ہمارا سوشل میڈیا ہے کیونکہ اس دور میں ہر انسان کے پاس موبائل ہے اور اس کو سوشل میڈیا تک رسائی حاصل ہے اور ان دنوں سوشل میڈیا پر جو طوفان بدتمیزی برپا ہے اس سے کون باخبر نہیں ہوگا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگ اس کا استعمال معاشرے کی فلاح کے لیے کرتے مگر ہر طرف منفی مواد کی بھرمار ہے اور لوگو کی اکثریت ان میں دلچسپی لیتی ہے۔

ہر طرف منفی مواد کو پروموٹ کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی سوچ بھی اسی طرح کی ہوتی جارہی۔ انسانی سائیکلوجی ہے کہ انسان اس چیز کی طرف بڑی جلدی مائل ہوتا ہے جو اسکے لیے نئی ہو اور پرتعش ہو جس کی وجہ وہ مزید ایسا ہی مواد یا چیزیں دیکھنا پسند کرتا اور یوں وہی باتیں خیالات اس کے ذہن میں رچ بس جاتے جسکو وہ پھر عملی زندگی میں لاتا ہے اور باقیوں کو متاثر کرتا ہے۔

منفی سوچ سے لوگوں میں ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے اور ایسے لوگ پھر اپنے روز مرہ کے کاموں کو ٹھیک سے انجام نہیں دے پاتے، جیسا کہ WHOکے 2023ء کے اعداد و شمار کے مطابق ذہنی صحت، ڈپریشن اور انزائیٹی کے کیسز میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ معاشرے میں عدم اعتماد بڑھتا ہے افراد، ادارے اور معاشرے ایک دوسرے پر اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔ معاشرے میں سماجی تقسیم "ہم بمقابلہ وہ" کی ذہنیت پروان چڑھتی ہے، جو فرقہ واریت، سیاسی اور ثقافتی تقسیم کو بڑھا دیتی ہے، انتہاپسندی، شدت پسندی اور نفرت انگیز بیانیے پنپنے لگتے ہیں، جس سے معاشرے کا امن بگڑ جاتا ہے۔ مزید یہ کہ افواہوں اور غلط معلومات کو فروغ ملنے سے بے بنیاد خبریں اور جھوٹے الزامات عام ہو جاتے ہیں، جو مزید بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔

اگرچہ منفی سوچ کو مکمل طور پر ختم کرنا مشکل ہے، لیکن کچھ اقدامات سے اس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے ہمیں چاہیے اچھی صحبت اختیار کریں اور مثبت سوچ رکھنے والے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا۔ اپنی محفلوں میں کسی بری چیز کی حوصلہ افزائی نہ کریں۔ انٹرنیٹ اور میڈیا کا استعمال مثبت مقاصد کے لئے کریں اور ہر قسم کے منفی مواد سے دور رہیں ایسے سوشل میڈیا مواد سے اجتناب جو دوسروں کی دل آزاری کا سبب بنے۔ مثبت رویوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اچھے خیالات، مثبت باتوں اور حوصلہ افزائی پر مبنی رویے اپنانا۔

منفی سوچ صرف ایک فرد کو ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اپنی سوچ اور رویوں پر غور کرنا ہوگا اور ایک صحت مند، مثبت ماحول کو فروغ دینا ہوگا، تاکہ نہ صرف ہم بلکہ ہمارا پورا معاشرہ ذہنی طور پر صحت مند اور ترقی یافتہ ہو سکے۔

Check Also

Ansu Zuban o Bayan Se Pehle

By Aamir Mehmood