Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Faisal Abbasi
  4. Kis Se Munsafi Chahen

Kis Se Munsafi Chahen

کسے منصفی چاہیں

آج کل الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر مدرسے میں پیش آنے والے ایک مبینہ واقعے کی بڑی دھوم ہے جس کے مرکزی کرداد مولوی ابوبکر معاویہ اور مدرسے کا ایک نوجوان طالب علم ہے۔ اس مبینہ واقعے کو بنیاد بنا کر آج کل بعض مذہب بیزار بھاڑے کے ٹٹوؤں نے خوب شور و غوں غاں بپا کر رکھی ہے۔ اچنبھے کی بات تو یہ ہے کہ جن دنوں یہ مبینہ واقعہ پیش آیا ان ہی دنوں پرائیویٹ سکولز میں بھی بچوں پر تشدد کے دو واقعات پیش آئے جس میں سے ایک واقعہ میں تو طالب علم جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ مگر ان نام نہاد دانشوروں کی غیرت ستو پی کر سوئی رہی بالکل اسی طرح جیسے بہاولپور یونیورسٹی میں درجنوں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات پر ان کو وہ تکلیف نہ ہوئی جو کسی مولوی کو دیکھ کر ہوتی ہے۔

بامرِ مجبوری کہنا پڑتا ہے کہ جناب عجب ہیجڑا قسم کی غیرت پائی ہے ان لوگوں نے جو صرف مولوی کے بغض میں جاگ جاتی ہے اور غیر مولوی کی باری اس کو گرہن لگ جاتا ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ روز اول سے اس واقعے کی انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور یکطرفہ رپورٹنگ کی جارہی ہے اور یہ نام نہاد لبرل دانشور صحافی کے بجائے وکیل بن کر صرف ایک ہی فریق پر مسلسل جراح کئے جارہے ہیں جس کا بظاہر مقصد علمائے کرام کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنا ہے مگر بعض و عناد کی بو لئے اس بھونڈی کوشش سے ان نام نہاد لبرلز کے منافقانہ چہرے کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پہلے طالب علم کے والد کی طرف سے مولوی ابوبکر معاویہ پر طالب علم کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام لگایا گیا تاہم بعد ازاں جب اس معاملے کی تحقیق کے لئے جب دیگر علما نے لڑکے کے والد سے رابطہ کیا تو لڑکے کے والد نے بیان دیا کہ مولوی صاحب ان کے بیٹے سے اپنے پاوں دبوار رہے تھے۔

جس پر لڑکے کے والد اور مولوی صاحب کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور لڑکے کا والد معاملے کو لے کر تھانے جا پہنچا جہاں پیر دبوانے کے معاملے کو جنسی زیادتی کے معاملے میں تبدیل کر دیا گیا۔ تاہم مشہور عالم دین علامہ ابتسام الٰہی ظہیر صاحب کے سمجھانے پر لڑکے کے والد نے اپنا الزام واپس لے لیا جس کے بعد مولوی صاحب کو رہا کر دیا گیا۔ جس کے بعد میڈیا پر علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کا بھی میڈیا ٹرائل شروع کر دیا گیا اور معروف لفافہ صحافی بھی ان کے خلاف میدان میں آگئے اور علامہ صاحب پر ہی جرح شروع کر دی۔ ان حالات میں انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اصل جرح تو لڑکے کے والد پر کی جاتی جس کا صبح بیان کچھ ہوتا ہے اور شام کو کچھ۔

اسی طرح اس معاملے کے تیسرے اہم فریق پولیس پر بھی جرح ہونی چاہئے جس نے ایک ہفتے سے زائد مولوی ابوبکر معاویہ کو اپنی تحویل میں رکھنے کے باوجود بھی مولوی موصوف اور مبینہ متاثرہ طالب علم دونوں میں سے کسی کا میڈیکل کروانا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ اگر قارئین کو یاد ہو تو اس قسم کا ایک واقعہ ماضی قریب میں بھی ایک مدرسے میں پیش آیا تھا جس میں نامزد کردہ مولوی صاحب سات ماہ کے قریب زیر حراست رہے بعد ازاں میڈیکل رپورٹ سے مولوی صاحب کی بے گناہی ثابت ہونے پر ان کو مقدمے سے بری کر دیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان سات ماہ کا حساب کون دے گا اور معاشرے میں مولوی صاحب کی جو کردار کشی کی گئی اور ان کی عزت کو داغدار کیا گیا اسے کون واپس دلا سکتا ہے؟

اس لئے گذشتہ واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ واقعے کی مکمل غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں اور واقعاتی کے ساتھ سائنسی شواہد بھی اکھٹے کئے جائیں اور اگر مولوی ابوبکر معاویہ پر لگایا گیا الزام درست ثابت ہوتا ہو تو موصوف کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ لیکن اگر لڑکے کا والد جھوٹا ثابت ہوتا ہے تو پھر لڑکے کے والد اور پولیس کے متعلقہ غیر ذمہ دار افسران کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ کوئی کسی کی عزت اچھالنے کی جرات نہ کرسکے۔ اسی طرح جن لوگوں نے اس واقعہ پر اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے بیرونی ایجنڈے کے زیر اثر علمائے کرام کے خلاف زہر اگلا ہے ان کی بھی چھان بین کی جائے اور جس کا کُھرا ملتا ہے اس کو بھی نشان عبرت بنایا جائے۔

یہاں ہماری پارلیمنٹ کا بھی فرض بنتا ہے کہ میڈیا کے تمام شعبوں بالخصوص سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق موثر قانون سازی کرے تاکہ جھوٹ کے ذریعے انسانی حقوق کا استحصال کرنے کا راستہ روکا جاسکے مگر افسوس یہ ہے کہ اس معاملے پر بھی ہمیشہ کی طرح ہماری پارلیمنٹ تقسیم ہے اور اس معاملے کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش ہور ہی ہے۔ ایسے میں ہم اس نظام میں کسے منصفی چاہیں؟

Check Also

Amjad Siddique

By Rauf Klasra