Ummat Ki Beti Ka Rasool e Mukarram Ke Naam Khat
امت کی بیٹی کا رسولِ مکرم کے نام خط
نبئ مکرم داور محشر نورِ مجسم یا رسولِ خدا خاتم الانبیاء ﷺ
ہو ہزاروں درود اور سلام آپ پر
آج یکم ربیع الاول ہے
میں آپ کی امتی اکیسویں صدی کی ایک عورت، ایک بیٹی، ایک بہن، ایک بیوی، ایک قلم کار آپ سے دست بستہ، انتہائی بے بسی کے عالم میں بہت زخمی حالت میں آپ سے مخاطب ھوں۔ اور یہ زخم جسم سے زیادہ میری روح پر ہیں۔
یا رسول اللہ ﷺ، آج سے آپ کی آمد کا جشن شروع ھوگا اور تمام دنیا کے مسلمان اپنے اپنے طریقوں اور روایات سے اس کا اظہار کریں گے۔ درود و سلام کی محافل اور نعت خوانی کی بزم سجائی جائے گی۔ اور مقدس نعتوں کی دھن پر پوری امت جھوم جھوم کر اور انگوٹھے چوم کر آپ سے عقیدت کا اظہار کرے گی۔ ہل ہل کر سلام پڑھا جائے گا۔ منبروں سے خطبے دیئے جائیں گے جلوس نکالے جائیں گے اور باور کرایا جائے گا کہ کس طرح زندگی کے ہر پہلو میں آپ ﷺ کی ذات مبارک ہم سب کے لیے نمونہ عمل ہے۔
یہ روایات صدیوں سے بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں چلی آرہی ہیں۔ زمانہ بدل گیا۔ طور طریقے بدل گیے ہیں۔ امت پہلے تفرقات میں بٹی فسادات میں پڑی اور خرافات میں میں کھو گئی اور بٹی ہوئی ہر ٹولی کو آپ سے عشق کا دعویٰ ہے۔ لیکن مجھ سمیت آپ کے یہ عاشق آپ کے عشق میں کتنے سچے ہیں آپ سے زیادہ کون واقف ہے۔
آج یکم ربیع الاول ہے۔ بیٹی کے درد سے آپ سے زیادہ کون واقف ھوگا۔ بیٹی کی عزت، تکریم اور محبت نے آپ کی عظیم دختر کی آمد سے معراج پائی ورنہ تو ہم زندہ دفن کردی جاتی تھیں۔
تاریخ میں آپ کے پاکیزہ آنسو محفوظ ہیں جو آپ کی آنکھوں سے دحیہ کلبی کے اسلام قبول کرنے سے پہلے اس اقرار جرم پر جاری ھوئے جو اس نے قبیلے کا سردار ھونے کے ناطے ستر بچیوں کو زندہ دفن کرنے کا کیا تھا۔ جس میں اس کی اپنی بیٹی بھی شامل تھی۔ اور آپ یہ دلخراش داستان سن کر زار زار روئے تھے۔
آقا! آپ کی امت نے آپ کے بعد تمام احکامات فراموش کردیے۔ آپ کی بیٹی کے گھرانے پر ظلم سے ابتدا ھوئی۔ ہم آج بھی زندہ درگور ہیں۔ ماردی جاتی ہیں۔ جلائی جاتی ہیں۔ نہ ہم گھروں میں محفوظ ہیں نہ مدرسوں میں حتٰی کے قبروں میں بھی تحفظ نہیں۔
چہاردیواری جو تحفظ کی علامت ہے وہاں بھی ھمارے سودے ھوتے ہیں۔ مدرسے جہاں علم کا رزق ملتا ہے وہاں معصوم کلیاں ھوس کا رزق بن جاتی ہیں۔ اس دورِ پر آشوب میں محافظ بھی لٹیرے بن بیٹھے ہیں۔ موت فقط بدن کی نہیں ھوتی روح بھی ماردی جاتی ہے۔ قبر جوکہ آخری پناہ گاہ ہے وہ بھی محفوظ نہیں ہے۔
ہم کمسن ھوں یا عمر رسیدہ، تعلیم یافتہ ھوں یا جاہل، باحجاب ہو یا بے حجاب خوبصورت ھوں یا بدصورت، بلا تفریق زندہ درگور کی جاتی ہیں۔
وقت کے مرحب و عنتر کے سامنے قوت حیدریؑ سے کمک لیتے ھوئے اگرجبر کے سامنے انکار کا مظہر بنتی ہیں تو لفظوں اور رویوں سے سنگسارکی جاتی ہیں کہ اپنے حق کے لیے سوال اٹھاتی، بولتی، جہاد کرتی باشعور عورت کس اس مادر زاد منافق معاشرے سے برداشت نہیں ھوتی۔
جس کے ہاتھ میں جتنا اختیار ہے وہ اتنی ہی خدائی پر اتر آتا ہے۔ ہماری گودیاں ویران کردی جاتی ہیں۔ دل نوچ لیا جاتا ہے گلا گھوٹ دیا جاتا ہے۔ نطق و زبان پر قفل لگا دیے جاتے ہیں۔ گلے گھونٹ دیے جاتے ہیں۔ سوچ تک پر پہرے لگائے جاتے ہیں۔ چادرِ ناموس چھلنی کردی جاتی ہے۔ خاموش رہنے کو کہا جاتا ہے لب سی دینے کی کوشش کی جاتی ہے ورنہ مار دیا جاتا ہے۔ پرائے تو تو پرائے اپنے بھی کہتے ہیں۔ "چپ رہو"۔
حضور ﷺ میرا تخیل تو آپ کی شیر دل نواسی کو سلامی دیتے ھوئے پوری قوت سے مجھے جبر کے سامنے مکمل صبر کے ساتھ شجاعت کے ساتھ ڈٹے رہنے کی تحریک دیتا ہے۔ جس نطق و بیاں نے صبر و شجاعت کے ساتھ تختِ ملوکیت کے پرخچے اڑا کر تاقیامت یزیدیت کو سرنگوں کردیا۔
یزید جو فرعون کی طرح زمین پر خدا بنا ھوا کہتا تھا کہ دیکھا باغی کی بہن! خدا نے تمہارے بھائی کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔ اور آپ کی دلیر نواسی جس نے دل آوری تخلیق کی ذوالفقار کی گرج جیسے لہجے میں جواب دیتی یے کل ہم نے خدا سے زیادہ جمیل کسی کو نہیں پایا۔
زمین پر جہاں جہاں عدل نہیں ہے زندگی کو کوفہ و شام کا سامنا ہے۔ اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ ظلم کے اطوار اور جبر کے انداز بھی بدل گیے ہیں۔ ہم پر کیے جانے والے ظلم و ستم اور جبر کا ابلاغ تو ساری دنیا میں ھوتا ہے لیکن منبروں پر قوت نطق و کلام دکھانے والوں سے لے کر میٹھی میٹھی نعتوں پر جھومنے والوں تک، کوئی داد رسی یا داوری کے لیے نہیں آتا۔ تمام معاشرہ اندھا بہرا اور گونگا ہے جیسے کے آپ کے آنے سے پہلے تھا ھم اب اس نہج پر پہنچ گیے ہیں۔
ان زمینی خود ساختہ خداؤں، ان کے ٹھیکے داروں اور حواریوں نے ہماری سزا و جزا کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے کر جینے کا حق چھین رکھا ہے۔ آپ شافع روزِ جزا، اور داور محشر ہیں۔ ہمارے لیے ہروز روزِ محشر ہے
المدد اے رسولِ خدا ﷺ
ہماری داوری فرمائیے یا داد رسی کے لیے کسی داور کو بھیجیے کہ ہم عدل کی سلطنت کے منتظر ھیں۔