Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Rabia Khurram/
  4. Kash, Mere Hakim Mere Muhafiz Hote

Kash, Mere Hakim Mere Muhafiz Hote

کاش! میرے حاکم میرے محافظ ہوتے

اس کے نام سے شروع کرتی ہوں جو مالک کل ہے۔ اور ان کے نام لکھتی ہوں جو اس دنیا میں مجھ پر حاکم رہے۔ جنہیں اس دنیا نے مجھ پر حکومت کا اذن دیا۔ ہر کسی نے مجھ پر حکومت اپنے الگ ہی انداز میں کی۔ میں کبھی شہزادی تھی کبھی رعایا تو کبھی لوٹ کا مال۔ کچھ نہیں تھی تو ایک فیصلے کی قوت رکھنے والی ہستی نہیں تھی۔ کم از کم اس وقت جب مجھے رعایا مان لیا گیا۔

باپ کے گھر کی شہزادی جسے ہر طاقت ہر قوت ہر اختیار اپنے والد سے تفویض کیا جاتا تھا۔ تعلیم کا حق، ہنر کی طاقت اور اپنی زندگی کا ساتھی چننے کا اختیار۔ بس یہیں کچھ بدل سا گیا۔ میں نے اپنا ساتھی چننے کا اختیار استعمال تو کیا لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ نہ کرتی۔ والد کے اختیار کو چیلنج نہ کرتی۔ تو زندگی میں وہ کچھ نہ ہوا ہوتا جو آج ہر زبان پر ہے۔ کاش بھی کیسا ادھورا لفظ ہے۔ کہ جس جملے کے ساتھ لگ جائے اسے کبھی مکمل ہونے نہیں دیتا۔ اور جس کی زندگی کاش بن جائے وہ خود کتنا ادھورا ہو گا؟ اور اگر یہ کاش ایک سے بڑھ جائیں۔ کاش میں پاکستان نہ آئی ہوتی، کاش میں میکے نہ گئی ہوتی، کاش میں اکیلی نہ ہوتی، کاش مجھے ڈرائیونگ نہ آتی، کاش میرا شوہر میرے ساتھ ہوتا، کاش میں نے کوئی دوسرا راستہ چنا ہوتا، کاش سیکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوتی، کاش۔۔۔ اور کاش کا ایک طویل سلسلہ ہے جو ختم ہی نہیں ہوتا۔ ہزار ہا سروں والا عفریت بن گیا ہے جو مجھے سونے نہیں دیتا۔ جاگنے بھی نہیں دیتا جینے بھی نہیں دیتا۔

پھر میں اپنے اختیار کو استعمال کر کے شہزادی سے ملکہ بننے کے خواب دیکھتے دیکھتے کب رعایا بن گئی مجھے پتا ہی نہ چلا۔ میری مرضی کب میرے سسرال اور شوہر کے موڈ کے تابع ہوئی جان ہی نہ پائی۔ بس جانا تو اتنا کہ وقت کے ساتھ ساتھ، دو اور جانیں بھی رعایا میں شامل ہو گئیں یہ دو ننھی منی جانیں بھی مجھے محکوم بنانے میں حاکم کی معاون ثابت ہوئیں۔ بظاہر میں ایک مضبوط عورت تھی۔ اپنی پیاری سی فیملی کے ساتھ، بیرون ملک مقیم، ایک خوشحال عورت جو اتنی آزاد تھی کہ سیلف ڈریون self driven کار میں اپنے بچوں کے ساتھ بے خطر طویل سفر کیا کرتی۔ بےشک وجہ یہ تھی کہ میرا ہم سفر بہت مصروف تھا سو یہ تمام ذمے داریاں میری تھیں کہیں بھی جانا ملنا ملانا تو مجھے مضبوط ہونا ہی پڑا۔ بظاہر مضبوطی کا فیصلہ میرا تھا لیکن یہ حاکم وقت کے فیصلے تھے جو مجھ پر لاگو کیے گئے۔ حکم حاکم مرگِ مفادات۔ لیکن میں خوش تھی۔ کیونکہ میں اپنی اولاد کے ساتھ آزادی کے چند سانس لے پاتی تھی۔ پھر لگا یہ یورپی ملک اور اس کا کلچر ہمارے مذہب اور معاشرتی روایات سے میل نہیں رکھتا۔ بچے ابھی چھوٹے ہی تھے انہیں کسی بھی ماحول میں رکھتے، پانی کی طرح اس میں ڈھل جاتے۔ اگر یہ سوال کرنے کی عمر میں پہنچ جاتے تو ان کا ماحول تبدیل کرنا مشکل ہو جاتا۔ میرے شوہر نے فیصلہ کیا کہ اب مجھے اولاد کے ساتھ اپنے پاک وطن واپس لوٹ جانا چاہئے تاکہ پاک وطن کے پاکیزہ ماحول میں ہمارے بچے اچھی عادات سیکھیں۔ گوروں کے دیس کی آزاد رو تہذیب سے دور رکھنا ہی بہتر آپشن تھی۔ میں اپنے شوہر کی ہمنوا تھی۔ سو شوہر سے دور سسرال میں رہنے کے فیصلے پر جز بز ہونے کے باوجود بچوں کی بہتری کے لیے واپس چلی آئی۔ میری زندگی کی قربانیاں اگر اولاد کا راستہ روشن کرتی ہیں تو میں مانند شمع ہر دم جلنے کے لیے تیار ہوں۔

کیا ہوا اگر میرا سسرال اور میکہ ایک دوسرے سے نہیں ملتا۔ کیا ہوا اگر مجھے اپنے شوہر سے اجازت نہیں کہ میں اپنے والدین سے مل سکوں۔ میں خود ڈرائیو کر سکتی ہوں۔ بچوں کے ساتھ ننھیال سے مل آوں گی کسی کو کیا پتا چلے گا۔ موٹروے سے جانے آنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ اب تو بہت تبدیلی آ گئی ہے۔ عام سا رستہ تو نہیں ہے نا جس پر کوئی خطرہ ہو۔ آخر فرانس میں بھی تو موٹروے پر سینکڑوں میل کے سفر کر چکی ہوں۔ سب خیر ہو گی۔ لیکن کتنا اچھا ہوتا اگر شوہر بھی میرے ساتھ چلتے۔ اچھا اب کی بار جب وہ واپس آئیں گے تو انہیں منا لوں گی زبردستی ساتھ لے جاوں گی آخر رعایا کا بھی حاکم پر کچھ حق ہوتا ہے۔ اگر رعایا ہی نہ رہے تو حکومت کاہے کی۔ انہیں میری بات ماننا ہی پڑے گی۔ آج تو مجبوری ہے امی کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ اور اتنے سال واپس آئی ہوں کیا سسرالیوں کے منہ دیکھتی رہوں کہ کوئی میرے ساتھ جائے گا۔ ان کے تو تعلقات ہی درست نہیں۔ بس خود ہی جاتی ہوں۔ بچے تو چھوٹے ہیں انہیں سمجھا لوں گی۔ اچھا سفر رہا 30 منٹ میں لاہور پہنچ گئی۔ اچھی سڑک بنائی ہے بس کچھ ویران سی تھی لیکن خیر ہے گورنمنٹ اچھی دیکھ بھال کر رہی ہے تبھی تو اتنی صاف سڑک ہے شکر ہے پاکستان ترقی کر رہا ہے۔ بچوں کے بڑا ہونے تک ان شاءاللہ ہمارا وطن بھی ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہونے لگے گا۔ دل ہی دل میں حکومت کی تعریف کرتی سرشار سی امی کے گھر پہنچی۔

ہمیں دیکھتے ہی امی کا بیمار اور اداس چہرہ کھل اٹھا۔ کیسی کمزور ہو گئی تھیں ابو کے جانے کے بعد۔ لیکن اب میں آ گئی ہوں نہ بس ہر ہفتے دو ہفتے بعد امی سے مل لیا کروں گی۔ اتنے عرصے بعد ملے تھے دکھ سکھ کہتے سنتے وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا جب گھڑی پر نظر پڑی۔۔ گیارہ بج چکے تھے۔ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ واپسی کی بے چینی میں ادھ سوئے بچوں کو کار میں ڈالا اور تیز رفتار سے واپسی کا سفر شروع کیا۔ ذہن میں بہت سی سوچیں تھیں۔ سسرال والوں کو دیر کا کیا جواز دوں گی۔ شوہر سے کیا بہانہ کرنا ہے کہ بچوں کے ساتھ کدھر رہی۔ میرے میکے جانے کی خبر تو وہ برداشت نہیں کر پائیں گے۔ یاخدا یہ مرد ذات کی انا اتنی بلند کیوں ہو جاتی ہے کہ بیوی کو اس کے خونی رشتوں سے بھی چوری چھپے ملنا پڑتا ہے میں نے رفتار کچھ اور تیز کی۔ بچے پچھلی سیٹ پر سیٹ بیلٹ میں محفوظ تھے۔ موٹروے پر سپیڈ لمٹ 120 تھی میں آرام سے جا رہی تھی کہ اچانک فیول کی بتی پر نظر پڑی۔ اوہ خدا یہ کیا۔ گھر پہنچنے کی جلدی میں فیول گیج پر نگاہ ہی نہیں گئی تھی۔ فیول ختم ہونے کو تھا اب دل ہی دل میں یہ دعا کرنے لگی کہ کوئی پٹرول پمپ مل جائے لیکن کچھ ہی دور جا کے کار روکنا پڑی۔ سچ ہے کہ بنا تیل گاڑی اور بنا روح جسم مردہ ہی ہوتا ہے۔

کچھ دیر اسٹیئرنگ پر دونوں ہاتھوں کی پشت پر پیشانی ٹکا کر سوچتی رہی کہ اب اس سنسان ویرانے میں کیا کروں پھر ایک عزیز کو فون ملایا۔ اس نے 130 پر فون کر کے موٹروے پولیس سے ہیلپ مانگنے کا کہا اور خود بھی میرے ریسکیو کے لیے پہنچنے کا عندیہ دیا۔ مجھے فرانس کی پولیس کا تجربہ تھا کہ چند ہی منٹ میں ریسکیو ٹیم پہنچ جاتی تھی۔ سو میں نے اسی یقین کے ساتھ 130 پر کال ملائی۔ کال اٹینڈ کر لی گئی لیکن ٹیلیفون آپریٹر نے کہا کہ ابھی موٹروے کے اس حصے کا آفیشل افتتاح نہیں ہوا۔ اس لیے اس روڈ پر موٹروے پولیس یا ریسکیو ٹیم کی ڈیوٹی نہیں لگائی گئی۔ سو وہ مدد بھیجنے سے قاصر ہے۔ کیوں بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ مجھ سے ٹول ٹیکس کا چیز کا لیا گیا ہے اگر موٹروے پر بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں۔ تو اسے موٹروے کیسے کہا جا سکتا ہے۔ میرے اصرار پر بھی وہ معذرت ہی کرتا رہا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اکیلی ہوں میرے ساتھ دو ننھے بچے ہیں مجھے مدد درکار ہے۔ لیکن وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔ اب میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہیں بیٹھتی اور اپنے عزیزوں کے آنے کا انتظار کرتی یا کسی راہ چلتی گاڑی سے مدد لیتی۔ جو کہ میں نے کیا۔ چند گاڑیاں تو مجھے اگنور کر کے نکل گئیں لیکن ایک صاحب رک گئے میری بات سنی اور قریبی ٹول پلازہ سے مدد بھیجنے کی یقین دہانی کرا کے چل دیے۔ پٹرول ختم تھا اے سی نہیں چل سکتا تھا۔ گرمی سے دم گھٹنے لگا تو کار کے شیشے نیچے کیے۔ رات اندھیری تھی۔ اور بچے کسمسا کے گھبرا کے اٹھ بیٹھے تھے۔ ان کی تسلی کے لیے کار کی اندرونی لائٹ آن کر لی۔ شاید یہی میری سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی کہ میری روشن کار کسی کی نظر میں آ گئی۔ مجھے رکے قریبا نصف گھنٹہ بیت چلا تھا اور تاحال کوئی مدد ملتی نظر نہیں آتی تھی۔ بار بار فون کر کے عزیزوں سے پوچھ رہی تھی کہ کتنی دیر میں پہنچ رہے ہیں وہ راستے میں تھے۔

انہیں گوجرانوالہ سے لاہور پہنچ کے واپس گوجرانوالہ کا سفر کرنا تھا۔ راستے میں میری کار کے لیے اضافی فیول بھی لینا تھا سو وقت تو لگنا تھا۔ صبر کے ساتھ بیٹھی بچوں کو بہلا رہی تھی۔ یہ خیال ذہن میں آیا کہ سڑک کنارے جنگل سے کوئی سانپ بچھو یا جنگلی جانور ہم پر حملہ نہ کر دے اس خیال کے آتے ہی کار کے شیشے اوپر کر کے کار فین آن کر دیا اور دروازے لاک کر دیے۔ لائٹ بند نہیں کر سکتی تھی کہ بچے رونے لگتے تھے۔ اس سب ویرانی میں یہ خیال بار بار آیا کہ کاش میرا شوہر اور سسرال والے میرے میکے سے ناراض نہ ہوتے تو آج اس لمحے اپنے بچوں کے ساتھ اس ویرانے میں تنہا نہ کھڑی ہوتی۔ یہ خاندانوں کے جھگڑے عورتوں کو تنہا اور غیر محفوظ بنا دیتے ہیں۔ بظاہر مضبوط نظر آتی عورت کتنی تنہا ہو جاتی ہے۔ میں دعائیں پڑھ رہی تھی کہ کوئی زہریلا جانور ہمیں نقصان نہ پہنچائے لیکن اس بات سے ناواقف تھی کہ زہر صرف جانوروں کی میراث تھوڑی ہے۔ کچھ طویل لمحے اور سرکے۔ کہ یکدم میں نے کار کے باہر سایہ دیکھا۔ میں محتاط تھی سو فورا کار کی اندرونی لائٹ بجھا دی۔ پھر پسنجر سیٹ کی طرف کا سایہ بھی نظر آیا وہ ایک نہیں دو سائے تھے جو میری کار کے اطراف گھوم رہے تھے۔ ڈور ہینڈلز کھینچ کے دیکھے گئے پھر شیشہ تھپتھپایا گیا۔ یہ دستک دوستانہ نہیں تھی۔ میرے جسم کے تمام رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ بچے اس دستک سے جاگ گئے تھے اور سہم کے رونا شروع کر چکے تھے۔ میری تمام حسیات جاگ گئی تھی میں جان گئی تھی کہ خطرہ شدید ہے شدید ترین۔ میں نے دروازے کا ہینڈل زور سے اپنی طرف کھینچ رکھا تھا کہ کوئی دروازہ نہ کھول سکے۔ لیکن ان دو سایوں نے میری طرف کی کھڑکی کو زور سے مارنا شروع کیا۔

کسی فولادی چیز کی ٹھوکر سے بالآخر شیشہ ٹوٹ گیا اور دروازہ کھل گیا۔ میں اپنی نسوانی حس اور جان بچانے کی جبلت سے مجبور ان کے نرغے سے نکل کے بھاگی۔ لیکن ایک سرد وارننگ نے مجھے روک لیا۔ تمہارے بچے ہمارے قبضے میں ہیں۔ ایک عورت اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ چکی تھی۔ ایک ماں اپنی اولاد کی جان بچانے کے لیے واپس آ گئی تھی۔ مجھے کچھ سوچنا تھا۔ میں نے انہیں زیور نقدی سب کچھ آفر کیا بچے رو رہے تھے اور ان کا رونا ان سایوں کو مضطرب کرتا تھا۔ ایک نے میرے بچے کے گال پر تھپڑ مارا بچہ سہم کے چپ ہو گیا اس کے لبوں سے پھوٹنے والا سرخ لہو سفید کار کے دروازے پر گرا۔ میں نے بچوں کو مسنون دعائیں یاد کروا رکھی تھیں وہی پڑھنے لگی اور بچوں کو بھی پڑھنے کی تاکید کی۔ لیکن سائے شاید بہرے تھے یا بےحس۔ وہ دعائیں ان کے لیے بےمعنی تھیں۔ موٹروے ہر رات کے بارہ بجے اکا دکا ہی گاڑیاں گزرتی تھیں اس دوران ایک گاڑی گزری اس کے ڈرائیور نے مجھے اور میں نے اسے دیکھا ہماری آنکھیں ملیں وہ جان گیا کہ کیا چل رہا ہے لیکن وہ رکا نہیں اپنی جان بچا کے نکل گیا۔ سنا ہے کہ اس نے ٹول پر اس واردات کی اطلاع دے دی تھی لیکن تب تک تو بہت دیر ہو چکی تھی۔

گزرتی گاڑی کے نوٹس لینے سے سائے مزید مضطرب ہوگئے اور ہمیں گھسیٹ کر قریبی جھاڑیوں میں لے گئے۔ اس لمحے میرے اندر سے زہریلے سانپوں کا خوف نکل چکا تھا۔ کیونکہ میں اپنے سامنے پھن پھیلائے اجگر دیکھ رہی تھی۔ اب میں جان چکی ہوں کہ رات کے اندھیرے سے پناہ کیوں مانگی گئی ہے جب وہ پھیل جائے۔۔ یہ اندھیرا پردہ پوش ہے بہت کچھ چھپا لیتا ہے بدبختوں کی سیاہ کاریاں بھی اور بدنصیبوں کی تیرہ بختیاں بھی۔ جنگل کی تنہائی، وحشت اور اضطراب کے ساتھ ساتھ طاقت کے عدم توازن نے میرے بخت میں سیاہی لکھ دی۔ وہ دو سائے ان لمحات میں مجھ پر اور میری اولاد پر حکومت کر رہے تھے۔ کسی کی حکومت محبت سے ہوتی ہے جیسے والدین کی کسی کی طاقت سے ہوتی ہے جیسے میرے سسرال کی اور کسی کی طاقت و شیطنیت سے ہوتی ہے جیسے اس لمحے مجھ پر طاقت و جنوں کے غلبے سے مغلوب حکمرانوں نے کی۔ میں بے بسی سے شل تھی۔ میری اولاد اور میں کسی کے رحم و کرم پر تھے۔ سیاہ پستول کا سرد لوہا میرے بچے کی گردن پر تھا اور میں شاک میں تھی۔ واسطے تھے منت اور ترلے تھے لیکن بہروں کو آواز سنائی نہیں دیتی۔ سائے تو چلے گئے لیکن ہم تینوں کی زندگیوں پر سایہ پڑ گیا۔

میں دریدہ بدن کے ساتھ شکستہ پکار کے ساتھ اس اندھیرے جنگل کی گود میں اپنی اولاد تلاشتی تھی۔ انہیں آواز دیتی تھی۔ میرے بچے میرے سینے سے لگے تو میں ڈھیر ہو گئی لیکن مجھے جاگنا تھا ابھی خطرہ ٹلا نہیں تھا میں بےہوشی سے لڑتی رہی۔ بس بچے بچ جائیں پھر مجھے سانپ کاٹ لے۔ بس بچے محفوظ رہیں میں نے اپنی اولاد کو اپنے اوپر سوار کر لیا کہ جنگل کی زمین سے اونچے رہیں۔ محفوظ رہیں جتنی حفاظت باقی رہ گئی تھی سو کر رہی تھی۔ جانے کتنی صدیوں بعد دور سے آواز آئی، کوئی ہے۔ میرے نیم بےہوش ذہن نے الفاظ پہچاننے میں دیر لگائی لیکن آواز قریب آتی جا رہی تھی۔ اے خدا میں زندہ کیوں ہوں؟ اے خدا مجھے کوئی نہ دیکھے۔ اے خدا میرے بچوں کو بچا لے۔ آواز پھر آئی میرا خوفزدہ ذہن اسے شیطانی سایوں کی آواز مان رہا تھا میں نے پکار کر کہا خدا کے لیے یہاں مت آو ہم کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے ہمیں چھوڑ دو۔ وہ آواز مہربان ہوتی چلی گئی میں بے یقین تھی اور بےحد سہمی ہوئی۔ مجھے یقین کرنے میں دیر لگی لیکن یہ سمجھ آ گئی کہ یہ مہربان آواز دوست کی ہے دشمن کی نہیں۔ تب میں نے اسے پکارا۔ میرا پردہ رکھو۔ دیکھو میرا پردہ رکھو مجھے مار دو میرے بچوں کو بچا لو لیکن مجھے مار دو۔ وہ آواز نہیں مانی وہ زندگی تھی وہ موت نہیں۔ تب میں نے اس سے دوسری التجا کی میری تشہیر مت کرنا میرا پردہ رکھنا۔

اب ان کا وقت تھا اب یہ مجھ پر حکمران تھے محبت توجہ ہمدردی مسیحائی سبھی کچھ تھا لیکن میری کہانی انہی کی زبانی پوری دنیا میں پھیل گئی۔ پھر بھی میں دعا دیتی ہوں کہ میرا نام مخفی رہا۔ کاش کہانی بھی پردے میں رہ جاتی۔ آج میں اور میرے بچے دوبارہ اپنے خاندان میں ہیں لیکن کیا واقعی؟ کیا اس معاشرے میں میرا وہی مقام باقی ہے؟ کیا میرا شوہر اور میرا سسرال مجھے وہی مقام دے پائیں گے کیا میرا میکہ مجھے وہی بیٹی مانے گا جو اس روز اپنے میکے گھر سے انہی کی محبت میں دیر سے روانہ ہوئی تھی۔ کیا میرے معصوم بچے اس حادثے کے اثرات سے نکل سکیں گے۔ کیا انہیں زندگی بھر کوئی یہ واقعہ یاد نہیں کرائے گا؟ کیا بچوں کا معصوم لاشعور اس ظلم کو رجسٹر نہیں کر چکا۔ اور کیا معاشرہ میری خطا بخش دے گا کہ میں نے اپنے میکے کی محبت میں سسرال کی پابندی نہیں مانی اور جوابدہی کے خوف سے شل دماغ نے مجھے فیول گیج دیکھنے نہیں دیا۔ کیا پاک وطن کے پاک ماحول میں بچوں کی پرورش کا خواب میرا گناہ تھا؟ کیا اپنے وطن کی موٹروے کے انتظام پر اعتماد میرا جرم تھا؟

سوچتی ہوں سائے پکڑے بھی گئے تب بھی میری زندگی سے سیاہ سائے ڈھلیں گئے یا نہیں؟ کیا یہ سیاہ رات ہی اب میرا نصیب ہے۔ تم سب جو مجھ پر حاکم رہے ہو تم سب سے میرا سوال ہے کہ جب رعایا پر ظلم ہو تو قصور کس کا ہوتا ہے؟

Check Also

Shirini Khori Aur Khuda Fehmi

By Mojahid Mirza